Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sohail Bashir Manj
  4. Khamosh Qatil Aur Green Revolution

Khamosh Qatil Aur Green Revolution

خاموش قاتل اور گرین ریولوشن

فضائی آلودگی کی بنیادی وجہ ماحول میں ایسے مضر اور زہریلے مادوں کا شامل ہو جانا ہے جو ہوا کے قدرتی توازن کو بگاڑ دیتے ہیں اور یہ نہ صرف ماحول بلکہ جانداروں کی صحت کے لیے بھی نقصان دہ ہیں۔ ان اسباب میں سب سے اہم وہ انسانی سرگرمیاں ہیں جو صنعتی ترقی شہری آبادی میں اضافہ اور جدید طرز زندگی سے جڑی ہیں، مثلاً فیکٹریوں اور کارخانوں سے نکلنے والا کثیف دھواں اور زہریلی گیسیں گاڑیوں اور دیگر ذرائع نقل و حمل سے خارج ہونے والی کاربن گیسیں اور بجلی پیدا کرنے والے پاور پلانٹس فضائی آلودگی کے بڑے مجرم ہیں۔ اس کے علاوہ جنگلات کی کٹائی جو قدرتی فلٹر کا کام کرتے ہیں، کچرے کو جلانا جس سے مضر ذرات فضا میں شامل ہوتے ہیں اور زرعی کیمیکلز و کھادوں کا غیر محتاط استعمال بھی اس مسئلے کو سنگین بناتا ہے۔ قدرتی عوامل جیسے آتش فشاں کا پھٹنا یا جنگل کی آگ بھی آلودگی پیدا کرتے ہیں لیکن زیادہ تر صورتوں میں اس کی ذمہ داری انسانوں پر عائد ہوتی ہے جو بے لگام ترقی کی دوڑ میں اپنے ماحول کو تباہ کر رہے ہیں۔

​​موت کا خاموش زہر ہماری فضا میں شامل ہو چکا ہے۔ زندگی آج انسانی سرگرمیوں کے بوجھ تلے سسک رہی ہے صنعتی انقلاب اور بے لگام شہری توسیع نے ہوا کو آلودہ زہر میں بدل دیا ہے جس کے ذرات ہماری سانس کی نالیوں میں خاموشی سے اتر کر صحت کا چراغ گل کر رہے ہیں ۔ یہ محض دھواں نہیں بلکہ ترقی کے اس بے ہنگم سفر کا ناگزیر انجام ہے جہاں گاڑیوں کے دھوئیں فیکٹریوں کے اخراج اور جنگلات کی کٹائی نے مل کر ایک ایسی چادر تان دی ہے جو سورج کی کرنوں کو مدھم اور تازہ ہوا کو نایاب کر رہی ہے۔ فضائی آلودگی صرف ماحول کا نہیں بلکہ انسانیت کا مشترکہ المیہ ہے جس کا مقابلہ شعور ذمہ داری اور فوری عملی اقدامات کے بغیر ممکن نہیں ورنہ یہ خاموش قاتل آنے والی نسلوں کے لیے ایک بے رحم میراث چھوڑ جائے گا۔

فضائی آلودگی بالخصوص سردیوں میں سموگ کی صورتحال پر قابو پانے کے لیے حکومت پنجاب نے ایک جامع ایمرجنسی ایکشن پلان فعال کر دیا ہے جو محض روایتی اقدامات سے ہٹ کر ٹیکنالوجی اور سائنسی ماڈلز پر انحصار کرتا ہے۔ اس سلسلے میں سب سے بڑا قدم جدید ترین "ایئر کوالٹی فورکاسٹ سسٹم" کا قیام ہے جو پاکستان میں اپنی نوعیت کا پہلا نظام ہے اور موسم کی صورتحال کے ساتھ فضائی آلودگی کی پیش گوئی بھی کرتا ہے۔ اس نظام کو چالیس سے زائد ایئر کوالٹی مانیٹرنگ اسٹیشنز کے نیٹ ورک سے جوڑا گیا ہے جن کی تعداد کو بڑھا کر 100 تک لے جانے کا منصوبہ ہے جس کا مقصد آلودگی کی ریئل ٹائم نگرانی اور بروقت کارروائی کو یقینی بنانا ہے۔

حکومت پنجاب نے اس مختصر وقت میں بہت سے سموگ ٹاور اینٹی سموگ گنز کوڑا کرکٹ والی جگہ کو ڈھانپ کر نئے جنگلات لگانا اور اس کے علاوہ بھی بہت سے اقدامات شامل ہیں لیکن اس کے باوجود بھی لاہور دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں پھر سے پہلے نمبر پر آگیا۔ میرا خیال ہے کہ حکومتی کوششیں درست لیکن لاہور کے رقبے کے لحاظ سے کم ہیں اور یہ کوئی قلیل مدتی منصوبہ نہیں ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس پر طویل مدتی منصوبے کے طور پر سوچنا ہوگا اور لاہور کو جنگلات سے بھرنا ہوگا تاکہ اس کی مدد اور ​ سائنسی ایجادات کے ساتھ آلودگی کے اہم ذرائع پر سخت کریک ڈاؤن کیا جا سکے۔

گاڑیوں کا دھواں ایک بڑا ہدف ہے جہاں دھواں چھوڑنے والی اور بغیر فٹنس سرٹیفکیٹ کے چلنے والی گاڑیوں کے خلاف سخت کارروائی، سڑکوں پر پانی کا چھڑکاؤ اور ٹریفک جام پر قابو پانے کے لیے خصوصی اقدامات کیے جائیں۔ صنعتی آلودگی پر قابو پانے کے لیے اینٹوں کے بھٹوں کو ماحول دوست زگ زیگ ٹیکنالوجی پر منتقل کیا جا چکا ہے، جبکہ فیکٹریوں کو آن لائن EPA کنٹرول سسٹم سے منسلک کیا گیا ہے تاکہ ان کے اخراج کی براہ راست مانیٹرنگ کی جا سکے۔ مزید برآں فصلوں کی باقیات جلانے پر زیرو ٹالرنس پالیسی اپنائی گئی ہے جس میں فضائی نگرانی کے لیے ڈرونز کا استعمال بھی شامل ہے۔ دیگر اقدامات میں "سموگ کیننز" اور "مسٹ سپر کلرز" کا استعمال، سموگ وار روم کا قیام اور پنجاب کی تاریخ میں پہلی بار پلاسٹک بیگز پر پابندی شامل ہیں جس سے فضائی اور زمینی آلودگی دونوں پر قابو پایا جا سکے۔ حکومتی کوششیں صرف سزاؤں تک محدود نہیں بلکہ آگاہی مہمات اور صاف ایندھن کے معیار کی جانچ بھی تسلسل سے جاری ہے۔

فضائی آلودگی کے بڑھتے ہوئے خطرات کے پیش نظر شہریوں کے لیے لازم ہے کہ وہ نہ صرف حکومتی اقدامات میں تعاون کریں بلکہ ذاتی سطح پر بھی ایسے حفاظتی اقدامات اپنائیں جو انھیں اس خاموش زہر کے مضر اثرات سے بچا سکیں۔ سب سے اہم احتیاط یہ ہے کہ آلودگی کی شدید سطح (اسموگ یا اے کیو آی کے خراب ہونے) کے دوران غیر ضروری طور پر گھروں سے باہر نکلنے سے گریز کیا جائے بالخصوص بچوں بزرگوں اور سانس کی بیماریوں میں مبتلا افراد کو جب باہر نکلنا ناگزیر ہو تو اچھی کوالٹی کا ماسک استعمال کریں کیونکہ یہ باریک ذرات کو سانس کی نالی میں داخل ہونے سے روکنے میں مؤثر ہیں۔

گھر کے اندر کی فضا کو صاف رکھنے کے لیے کھڑکیوں اور دروازوں کو بند رکھیں اور اگر ممکن ہو تو ایئر پیوریفائر کا استعمال کریں یا کم از کم ایسے اندرونی پودے لگائیں جو ہوا کو صاف کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ صحت کے حوالے سے پانی کا زیادہ استعمال کریں تاکہ جسم سے زہریلے مواد خارج ہو سکیں اور قوت مدافعت بڑھانے والی غذائیں جیسے وٹامن سی سے بھرپور پھل اور سبزیوں کو اپنی خوراک کا حصہ بنائیں۔ ایک ذمہ دار شہری ہونے کے ناطے ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ذاتی طور پر کچرا جلانے دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کے استعمال اور گرد و غبار پھیلانے والی سرگرمیوں سے مکمل پرہیز کریں تاکہ دوسروں کے لیے بھی صاف ہوا کو یقینی بنایا جا سکے۔

یقیناً حکومتی عزم اور سخت گیر اقدامات کے باوجود یہ فضائی آلودگی کا عفریت آج بھی ہمارے شہروں پر اپنے سیاہ پر پھیلائے ہوئے ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ محض ایک موسمی مسئلہ نہیں بلکہ ہمارے اجتماعی طرزِ زندگی کا گہرا روگ ہے۔ اس دل دہلا دینے والی حقیقت سے مستقل نجات کے لیے ہمیں سطحی تدابیر سے نکل کر ایک ہمہ گیر اور "گرین ریولوشن" کی طرف بڑھنا ہوگا۔ سب سے پہلے ہمیں ذاتی ذمہ داری کا اِقرار کرنا ہوگا یعنی ہر شہری کو آلودگی پھیلانے والے ہر عمل کو "اخلاقی جرم" سمجھنا ہوگا۔ مستقل حل کا پہلا سنگ بنیاد "سبز معیشت" میں مضمر ہے ہمیں پرانے اور دھواں چھوڑنے والے ایندھن کو ترک کرکے بجلی سے چلنے والی یا ہائبرڈ گاڑیوں کی طرف شفٹ ہونا پڑے گا۔

صنعتوں کو مجبوراً صفر اخراج کے معیارات اپنانے ہوں گے۔ دوسرا مستقل حل شجرکاری کو عبادت کا درجہ دینا ہے جہاں ایک درخت کا کٹنا ایک نسل کا نقصان تصور کیا جائے۔ شہروں میں موجود تمام خالی اور سرکاری جگہوں کو اربن جنگلات میں بدلنا ہوگا اور ہر گلی ہر محلے کو سبزے سے آراستہ کرنا ہوگا۔ آج سے تقریباََ پانچ سال پہلے میں نے اپنا ایک کالم "شجرکاری فرض ہو چکی ہے" میں عرض کیا تھا کے سوائے درخت لگانے کے ہمارے پاس بچنے کا کوئی راستہ نہیں ہے اور اس کے ساتھ ساتھ پنجاب میں موجود تمام خالی جگہوں کی خواہ وہ کسی بھی محکمے کی ملکیت ہوں کی نشاندہی کی تھی جہاں پر اربوں کی تعداد میں درخت لگائے جا سکتے ہیں۔

تیسری اور سب سے مؤثر تجویز یہ ہے کہ حکومتی پالیسیوں کو محض ایک سیزن کی ایمرجنسی نہیں بلکہ قومی بقاء کا دیرپا منصوبہ بنانا ہوگا جس میں صاف ہوا کو ہر شہری کا "آئینی حق" تسلیم کیا جائے۔ اگر ہم آج اپنی ہوا کی پاکیزگی کے لیے یہ جرات مندانہ اور مستقل فیصلے نہیں کرتے تو کل آنے والی نسلیں ہمیں گندی سانسیں لینے پر مجبور کرنے کا دردناک الزام دیں گی۔ ایک ایسا الزام جو ہماری زمین کے ساتھ کی گئی بے وفائی کا پائیدار کفارہ بن جائے گا اور تاریخ جب بھی لکھی جائے گی تو ہماری موجودہ نسل کو بنی نوح انسان کا قاتل لکھا جائے گا۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari