Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sohail Bashir Manj
  4. Geo To Mushtaq Ahmad Khan Ki Tarah

Geo To Mushtaq Ahmad Khan Ki Tarah

جیو تو مشتاق احمد خان کی طرح

جناب سینٹر مشتاق احمد خان جو اپنی جرات اور انسانی ہمدردی کے لیے جانے جاتے ہیں نے غزہ کے لیے اپنی روانگی کا اعلان کیا ہے۔ ان کا یہ اقدام ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب غزہ کو شدید انسانی بحران کا سامنا ہے اور وہاں کے باسیوں کو عالمی امداد کی اشد ضرورت ہے۔ خان صاحب کا یہ سفر محض ایک سیاسی عمل نہیں بلکہ فلسطینی عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی اور عملی مدد کا عکاس ہے۔

​ان کا یہ اقدام ان کے مضبوط اخلاقی موقف اور انسانیت کے لیے ان کی غیر متزلزل وابستگی کا ثبوت ہے۔ مشتاق احمد خان ہر دور میں اسمبلی میں یا اسمبلی کے باہر مظلوموں کی آواز بنتے رہے ہیں اور غزہ کا سفر ان کے اسی عزم کا تسلسل ہے۔ امید تھی کہ ان کی موجودگی غزہ کے عوام کے لیے حوصلے کا باعث بنے گی اور عالمی برادری کی توجہ اس سنگین مسئلے کی طرف مبذول کرانے میں مددگار ثابت ہوگی۔ یہ سفر نہ صرف ایک گروہ کا سفر ہے بلکہ یہ پاکستان کے عوام کی جانب سے فلسطینی بھائیوں کے لیے محبت اور حمایت کا پیغام بھی ہے۔

جب غزہ کی گٹھڑیوں پر شبہ کا پہرہ بٹھا دیا جائے اور بھوک سے نڈھال حلقوں تک پہنچنے والی امید کو آہنی ہاتھوں سے جکڑ لیا جائے تو یہ محض کوئی فوجی آپریشن یا ایک قانون نافذ کرنے والا عمل نہیں رہتا یہ انسانیت کے اجتماعی ضمیر پر ایک سوالیہ نشان بن جاتا ہے۔ ایک ایسے خطے میں جہاں ہر سانس ایک کرب ہے اور ہر گھر ایک کھنڈر امداد کا ایک ٹرک صرف خوراک نہیں زندہ رہنے کی آخری دلیل ہوتا ہے۔ قافلے پر دعوہ اور امدادی کارکنوں کی گرفتاریاں یہ ثابت کرتی ہیں کہ تنازعات کی آگ کتنی بے رحم ہوتی ہے جہاں بنیادی انسانی ہمدردی کا اصول بھی جنگی حکمتِ عملی کی دھول میں اوجھل ہو جاتا ہے۔ یہ واقعہ اس بھیانک سچائی کی گواہی ہے کہ آج امدادی سامان اپنی منزل تک پہنچنے سے پہلے شک کی تلوار اور بے یقینی کے زندان سے گزرنے پر مجبور ہے اور اس تمام کشمکش میں پِستا وہ عام شہری ہے جس کے پاس نہ کوئی سیاسی طاقت ہے اور نہ کوئی دفاعی حصار۔ یہ محض گرفتاریاں نہیں یہ ہزاروں بھوکے بچوں کی خاموش آہ ہے جو اس بات کا اعلان کر رہی ہے کہ جنگ کی سفاکیت نے اب زندگی بچانے والی نیکی کو بھی اپنا ہدف بنا لیا ہے۔

مشتاق احمد اور اس قافلے میں موجود ہر شخص کا یہ قدم یعنی غزہ کے محصورین تک غذائی سامان لے کر پہنچنا اور اس عمل میں اسرائیلی گرفتاری کا سامنا کرنا بلاشبہ ایک تاریخی اور نہایت جذباتی واقعہ ہے۔

​جب مشتاق احمد نے انوکھے جرات مندانہ قدم کے ذریعے غزہ کی جانب رختِ سفر باندھا تو وہ صرف غذائی سامان ہی نہیں لے کر جا رہے تھے بلکہ وہ امت مسلمہ کے سوئے ہوئے ضمیر کے لیے ایک عملی پیغام لے کر جا رہے تھے۔ ان کا یہ عمل جو بعد میں اسرائیلی قید کی صورت اختیار کر گیا دراصل دنیا بھر کے مسلمانوں کو یہ پکار کر رہا ہے کہ ایمان محض دعاؤں اور مذمتی بیانات کا نام نہیں بلکہ عملی قربانی کا مطالبہ کرتا ہے یہ اس بات کا اعلان ہے۔

کہ جب انسانیت بھوک سے بلکتی ہو تو ہر رکاوٹ اور خطرہ جوشِ عمل کے سامنے بے وقعت ہے مشتاق احمد کی قید نے دنیا کو یہ یاد دلایا ہے کہ غزہ کے محصورین صرف غذا کی قلت کا شکار نہیں بلکہ وہ اجتماعی بے حسی کی چکی میں پس رہے ہیں۔

یہ پیغام ہے کہ ہر مسلمان کو اپنی حیثیت کے مطابق طاغوت کے جبر کو توڑنے کی کوشش کرنی چاہیے خواہ وہ اقدام کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ ہو کیونکہ جرات اور سچائی کا ہر قدم باطل کی بنیادیں ہلا دیتا ہے ان کا یہ اقدام امت کے لیے "بنیانِ مرصوص" (سیسہ پلائی ہوئی دیوار) بننے اور اپنے فلسطینی بھائیوں کو تنہا نہ چھوڑنے کا واضح پیغام ہے۔

مشتاق احمد کا غزہ کی بھوک سے بلکتی معصوم عوام کے لیے غذائی امداد لے کر نکلنا درحقیقت ایمان کی وہ پکار تھی جسے محض دُور کی آواز سمجھ کر نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ ان کا یہ عمل جو سچائی کے راستے پر جرات اور ایثار کی لازوال داستان رقم کرتا ہے تمام تر سفارتی مصلحتوں اور مادی خوف پر جذبۂ انسانیت کی فتح کا اعلان ہے اسرائیلی جبر کے ہاتھوں ان کی گرفتاری نے یہ ثابت کر دیا کہ ظلم کی زنجیریں صرف جسموں کو قید کر سکتی ہیں ضمیر کی آواز کو نہیں۔ اس نازک موڑ پر حکومتِ پاکستان کا کردار صرف مذمت تک محدود نہیں رہ سکتا اسے چاہیے کہ وہ فوراً "ریاست مادرِ ملت" کا بھرپور ثبوت دیتے ہوئے تمام تر سفارتی مشینری کو حرکت میں لائے۔ گرفتار شدہ شہریوں کی فوری اور باعزت رہائی کے لیے اقوام متحدہ، او آئی سی اور اسرائیل سے تعلقات رکھنے والے ممالک پر مضبوط سیاسی دباؤ ڈالا جائے۔

اور انہیں بین الاقوامی قانونی مدد فراہم کی جائے پاکستان کی پہچان فلسطین کے ساتھ غیر متزلزل یکجہتی ہے اور یہ وقت مطالبہ کرتا ہے کہ ہم مشتاق احمد جیسے اپنے فخر کو تنہا نہ چھوڑیں بلکہ یہ واضح کر دیں کہ ہر پاکستانی شہری کی سلامتی اور آزادی ریاستی ترجیحات میں سب سے اول ہے کیونکہ جرات کے چراغ کو ظلم کے اندھیروں میں گُل نہیں ہونے دیا جا سکتا۔

مشتاق احمد خان اور ان کے ساتھیوں کو امدادی قافلہ لے جانے میں درپیش چیلنجز کے تناظر میں یہ تمام ممالک ایک انسانی اور مشترکہ ذمہ داری کے تحت اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ترکی، چین، روس، ایران، سعودی عربیہ اور قطر کو چاہیے کہ وہ اپنی جغرافیائی، سیاسی اور مالی قوت کو یکجا کرتے ہوئے قافلے کی محفوظ اور بلاروک ٹوک رسائی کو یقینی بنائیں۔

​یہ محض مالی امداد کا معاملہ نہیں بلکہ ان ممالک کو اپنے سفارتی اثر و رسوخ کو بروئے کار لا کر جنگ بندی یا محفوظ راہیں نکالیں تاکہ ظلم و جبر کی چکی میں پیسے فلسطینیوں کو سکھ کا سانس مل سکے۔

​ ان کا کردار سیاست سے بالا تر، انسانیت کی خدمت پر مبنی ہونا چاہیے تاکہ متاثرین تک امداد کی ہر ممکن کوشش کامیاب ہو سکے مشتاق احمد اور ان جیسے بہادر کارکنان کو تنہا جدوجہد نہ کرنی پڑے یہ اتحاد نہ صرف ایک قافلے کی منزل بلکہ اجتماعی انسانی ہمدردی کا پیغام بھی پہنچائے گا۔

سینٹر مشتاق کے لیے صائمہ کامران نے بڑا زبردست خراج عقیدت پیش کیا ہے وہ لکھتی ہیں کہ۔۔

لگتا ہے ایک صاحب کردار تمی ہو
ہر حرف ستائش کے حقدار تمی ہو

اس قوم کی جانب سے کیا فرض کفایہ
بے خوف نڈر صاحب اسرار تمی ہو

کس شان سے چلتے ہو مقتل کی فضا میں
حیدر کی سناں سعد کی تلوار تمی ہو

لرزاں ہے۔۔ دلیری پہ نیزہ یزیدی
اس دور میں شبیر کا انکار تمی ہو

بہرحال جو بھی کہیں مشتاق احمد خان نے وہ کر دیا جو بڑی بڑی طاقتیں نہ کر سکی اور انہوں نے پاکستان سمیت تمام مسلم امہ پر ثابت کر دیا ہے کہ جیو تو مشتاق احمد خان کی طرح۔۔

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam