Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sohail Bashir Manj
  4. Ewano Ki Dehleez Par Dilon Ka Karb

Ewano Ki Dehleez Par Dilon Ka Karb

ایوانوں کی دہلیز پر دلوں کا کرب

​ہمارے کھیتوں کا محافظ ہمارے لیے اپنی راتوں کی نیندیں اور دن کا سکون قربان کر دینے والا آج اپنے ہی ہاتھوں اگائی ہوئی فصلوں کے سائے تلے بے بسی کی تصویر بنا کھڑا ہے۔ وہ کسان جس کی محنت کی بوُ باس سے ہماری روٹی میں ذائقہ آتا ہے آج خود قرض، موسمی آفتوں اور سیلاب کی بے رحم تباہ کاریوں کی چکی میں پس رہا ہے۔ یہ کیسا المیہ ہے کہ جو زمین کو سینچ کر شاداب کرتا ہے اسی کے دامن میں خشک سالی کا ڈر بسیرا کر جائے۔

جب بیج مہنگے ہوں کھادوں اور ڈیزل کی قیمت حکومت کے کنٹرول سے باہر ہوں فصل کی قیمت کوڑیوں کے مول لگے اور اس سے بھی بڑا ظلم کے کسان کو مافیا کے رحم و کرم پر بے اسرا چھوڑ دیا جائے تو اس محنت کش کے دل پر کیا گزرتی ہوگی؟ اس کی آنکھوں میں وہ بے یقینی جھلکتی ہے جو آنے والے کل کے خوف کی کہانی سناتی ہے۔ ہمیں افسوس ہے کہ ہم نے اس طبقے کو بھلا دیا جو ہماری زندگی کی بنیادی ضرورت پوری کرتا ہے۔ کاش! ہم کسان کی پگڑی کا مان رکھ سکیں اس کے پسینے کو ضائع نہ ہونے دیں کیونکہ اس کی خوشحالی سے ہی ہمارا ملک خوشحال ہوگا۔

​ گزشتہ برس جب کھیت سوکھ رہے تھے اور کسانوں کے خواب قرض کی دلدل میں ڈوب رہے تھے تو افسوس کہ اقتدار کے ایوانوں میں ایک مجرمانہ خاموشی چھائی رہی جس طبقے کے شب و روز کی محنت پوری قوم کا پیٹ بھرتی ہے اسی کی فریاد کو سماعتوں تک پہنچنے نہیں دیا گیا یا سنی ان سنی کر دی گئی حکومت کی وہ بے رخی یا آئی ایم ایف کی شرائط میں دبی بے بسی دل کو چیر دینے والی تھی جب آفت زدہ کسان خالی ہاتھوں اور بھرے دل کے ساتھ انصاف کا منتظر رہا۔

یہ محض اعداد و شمار کا نقصان نہیں تھا یہ ہزاروں گھرانوں کی امیدوں کا قتل عام تھا یہ کیسا نظام ہے جہاں نعرے تو ترقی کے لگائے جاتے ہیں، روزانہ ٹیلی ویژن سکرینوں پر ترقی کے گراف کو آسمان کی بلندیوں تک پہنچتا دکھایا جاتا ہے مگر غریب کسان کو یوں بے یار و مددگار چھوڑ دیا جائے؟ اس بے اعتنائی نے کسان کا اعتماد ہی نہیں بلکہ مستقبل پر اس کا بھروسہ بھی توڑ دیا ہے۔

میرا کسان بہت معصوم ہے اس نے اپنے پر ہونے والی تمام تر سابقہ زیادتیوں کو بھلا کر حکومت کے اعلان پر پھر سے لبیک کہا اور دوبارہ سے گندم بیجنے کی تیاری شروع کر دی۔

​یہ نومبر کا مہینہ ہے اور کسان ایک بار پھر ادھار کی کھاد اور مہنگے بیج کمر کو توڑتی ہوئی کھادیں اور ڈیزل کے ڈرم تھامے اپنے کھیتوں میں کھڑا ہے۔ اس سال گندم کی بوائی محض ایک زرعی عمل نہیں یہ پچھلے برس کی کڑوی یادوں اور آنے والے موسم کے غیر یقینی خوف کے درمیان ایک نازک امید کا بیج بونا ہے۔ زمین کو چھوتے ہر دانے میں کسان کی دعا شامل ہے کہ کاش! اس بار تقدیر مہربان ہو اور اس کی محنت رائیگاں نہ جائے جب وہ کھیت میں ہل چلاتا ہے تو ہر لکیر میں اس کے دل کا درد جھلکتا ہےکہ اگر فصل اچھی ہو بھی گئی تو کیا منڈی میں اسے اس کی محنت کا حق مل پائے گا؟

یا گزشتہ ادوار کی طرح اس سال بھی انہیں مافیا کے تیز دار خنجروں کی نوک پر اکیلا چھوڑ دیا جائے گا۔ آئیے ہم سب مل کر اس خاموش محنت کش کے لیے دعا کریں اور اس کے حق کے لیے آواز اٹھائیں تاکہ اس کی امید کا یہ ننھا پودا ہریالی بن کر لہلہا اٹھے۔

​گندم کا یہ کھیت صرف اناج کا ذخیرہ نہیں یہ ہمارے کسان کی سال بھر کی امیدوں کا لہلہاتا سمندر ہے وہ اس فصل کو صرف بیجوں سے نہیں بلکہ اپنی لٹی پٹی جیب، پچھلے سال کے قرض، بچوں کی تعلیم، بیٹی کی رخصتی، نیا گھر تعمیر کرنے کے خوابوں سے سینچتا ہے۔ ہر خوشہ جو آہستہ آہستہ سنہرا ہو رہا ہوتا ہے اس کے لیے صرف گندم کا دانہ نہیں بلکہ اس کی انتھک محنت، مشکلات کی برداشت اور صبر کا نعم البدل ہوتا ہے۔ کسان کی آنکھیں دن رات آسمان اور زمین کے ملاپ پر لگی رہتی ہیں کہ کہیں موسم کی بے رخی ممکنہ سیلاب کا خطرہ یا منڈی کے ستمگر ہاتھ اس کی امیدوں کے اس نازک محل کو مسمار نہ کر دیں۔ دراصل ہمارا پیٹ بھرنے والا یہ طبقہ ہر سیزن میں ایک نیا امتحان دیتا ہے اور ہماری ہمدردی کا حق ہے کہ اس کی یہ پُرامید مشقت آخر کار کسی بڑی ناکامی کا قصہ نہ بن جائے۔

حکومت پنجاب کو اب خوابوں اور وعدوں کی دنیا سے نکل کر حقائق کی کٹھور زمین پر قدم رکھنا ہوگا، کسان کی بہتری محض اعلانات سے نہیں بلکہ عملی اقدامات سے ممکن ہے اسے سب سے پہلے پیداواری لاگت کو قابو کرنا ہوگا کھاد، بیج اور ڈیزل کی قیمتوں میں سبسڈی کا بوجھ کسان کے کاندھوں سے اٹھا کر ریاستی ذمہ داری بنانا ہوگی۔

ساتھ ہی اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ گندم سمیت ہر فصل کی بروقت اور مقررہ سرکاری قیمت پر خریداری ہوتاکہ مڈل مین کسان کی مجبوری کا فائدہ نہ اٹھا سکے۔ اگر پنجاب حکومت کسان کو صرف اس کی محنت کا مناسب حق دے دے تو وہ خود اپنے مسائل کا حل نکال لے گا کیونکہ کسان امداد نہیں انصاف چاہتا ہے۔

​حکومت پنجاب سے یہ التجا ہے کہ وہ کسان کو محض سیاسی نعروں کا حصہ نہ سمجھے بلکہ اس کے وجود کو ملک کی غذائی سلامتی کی بنیاد تسلیم کرے۔

اب وقت ہے کہ بیج، کھاد اور بجلی کی قیمتوں پر ٹھوس سبسڈی دی جائے اور سرکاری خریداری مراکز پر انصاف کی حکمرانی قائم کی جائے۔ خدا را! ریاست کے اس کماؤ پوت کو مایوسی اور قرض کی تاریکی سے نکال کر خوشحالی کی روشنی دیں۔

ہمارا مستقبل انہی کھیتوں سے جڑا ہے لہٰذا کسان کو تحفظ دے کر ہم دراصل قوم کے کل کو محفوظ بنا رہے ہیں۔

جناب وزیراعلی آپ کے جن مشیروں نے پچھلی دفعہ کسانوں سے گندم کی خریداری نہ کرنے کے مشورے دیے تھے اس دفعہ جب گندم کی فصل آنے والی ہو توانہیں پندره دن کے لیے سرکاری خرچ پر ناران کاغان بھیج دیں اور ہوٹل والوں کو پابند کر دیں کہ انہیں باہر نہ نکلنے دیں اور خود گندم کی خریداری دل کھول کر لیں۔ اس دفعہ جتنی گندم لگ رہی ہےآپ عالمی مارکیٹ میں سے اگر کوئی اچھے گاہک تلاش کر لیتی ہیں تو پنجاب گورنمنٹ اچھی قیمت پر گندم فروخت کرکے سرمایہ بھی کما سکتی ہے۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari