Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sohail Bashir Manj
  4. Durand Line Par Dahakti Aag

Durand Line Par Dahakti Aag

ڈیورنڈ لائن پر دہکتی آگ

ڈیورنڈ لائن کی سنگلاخ وادیاں ایک بار پھر لہو لہان ہو چکی ہیں جہاں دو برادر ہمسایہ ممالک پاکستان اور افغانستان کے درمیان بے اعتمادی کی ایک نئی لہر نے خونی جھڑپوں کا روپ دھار لیا ہے۔ حالیہ کشیدگی محض سرحدی نوک جھونک نہیں بلکہ ایک گہرا زخم ہے جو دہائیوں پرانی تاریخی بد اعتمادی اور دہشت گردی کے خطرات کے مشترکہ چیلنج سے پھوٹا ہے۔ جب گولہ باری کی گونج بلند ہوتی ہے تو سرحد کے دونوں اطراف کے دیہات میں رہنے والے بے گناہ شہریوں کے دل لرز اٹھتے ہیں، وہ جن کے دکھ درد اور ثقافت یکساں ہیں مگر جن کی قسمت سیاسی اور نظریاتی تقسیم کی بھینٹ چڑھ رہی ہے۔

ایک جانب اسلام آباد اپنی سرزمین پر حملوں کے لیے افغان سرزمین سے ہونے والی دہشت گردانہ کارروائیوں کو روکنے کا مطالبہ کرتا ہے تو دوسری جانب کابل اپنی خودمختاری کی خلاف ورزی اور فضائی حملوں کا الزام عائد کرتا ہے۔ یہ تناؤ صرف دو حکومتوں کا نہیں بلکہ ان لاکھوں پناہ گزینوں کا بھی مقدر ہے جو اپنے وطن کی جانب دیکھنے کے منتظر ہیں ضروری ہے کہ یہ جنگ بندی صرف ایک عارضی خاموشی نہ ہو بلکہ دونوں ممالک کے حکام تحمل تدبر اور برادرانہ تعلقات کی روشنی میں بیٹھ کر ایک پائیدار حل تلاش کریں تاکہ اس خطے میں دیرپا امن کی شمع روشن ہو سکے۔

ریاست پاکستان نے بارہا افغان حکومت کو کہا ہے کہ سرحد پار سے دہشت گردی کو روکیں لیکن جب افغانستان دہشت گردی بڑھتی ہوئی وارداتوں کو روکنے کے لیے کوئی ساتھ نہیں دے رہا تھا تو افواج پاکستان کا جوابی اقدام ایک غیر معمولی شدت اور فیصلہ کن عزم کا آئینہ دار تھا جس نے سرحد پار سے ہونے والے بلا اشتعال حملوں کا منہ توڑ جواب دیا۔ جب سرحدوں پر ناپاک عزائم کے سائے منڈلائے تو پاکستان نے نہ صرف دفاع کے حق کو استعمال کیا بلکہ فوری اور مؤثر جوابی کارروائی کرتے ہوئے اپنی تمام تر فوجی صلاحیت بروئے کار لائی۔ اس جوابی اقدام میں توپ خانے اور جدید ڈرون حملوں کی گونج سنائی دی جس کے نتیجے میں اطلاعات کے مطابق دہشت گردوں کے متعدد ٹھکانے اور تربیتی کیمپ خاکستر کر دیے گئے اور دشمن کو بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا۔

پاکستانی فورسز نے افغانستان کی طرف موجود کلیدی چوکیوں پر بھی قبضہ جما کر یہ واضح کر دیا کہ ملکی خودمختاری کے دفاع میں کسی بھی جارحیت کو پوری طاقت اور شدت کے ساتھ کچل دیا جائے گا۔ یہ ایک ایسا سخت جواب تھا جس نے نہ صرف حملوں کا سلسلہ روکا بلکہ خطے کے اس نازک موڑ پر اسلام آباد کا دوٹوک مؤقف بھی دنیا کے سامنے رکھ دیا کہ امن کی خواہش کو کمزوری نہیں سمجھا جانا چاہیے۔

ڈیورنڈ لائن کے پہاڑی سلسلوں پر چھائی حالیہ کشیدگی کی سیاہی میں اسلام آباد کی جانب سے یہ گہرا خدشہ بار بار ابھر رہا ہے کہ افغانستان اب صرف اندرونی شورش کا شکار نہیں رہا بلکہ پڑوسی ملک ہندوستان کی حمایت اور پشت پناہی سے ایک نئی چال چل رہا ہے۔ پاکستان کا ماننا ہے کہ کابل کی نئی سرگرمیوں کے پیچھے ہندوستان کا وہ دیرینہ حربہ کارفرما ہے جو افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف پراکسی جنگ کے میدان کے طور پر استعمال کرنا چاہتا ہے۔

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ جب پاک افغان سرحد آگ و آہن کا منظر پیش کر رہی تھی تو افغانستان کے وزیرِ خارجہ کا ہندوستان کا دورہ اور وہاں سے جاری ہونے والے بیانات نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ اگرچہ ہندوستان خود کو افغانستان کا ایک بڑا ترقیاتی شراکت دار اور خیر خواہ قرار دیتا ہے مگر پاکستان اسے اپنی خودمختاری اور استحکام کے خلاف ایک گہری سازش سمجھتا ہے جس میں بھارت ایک "نیو نارمل" کے تحت دہشت گردی کو فروغ دینے والے عناصر کو پناہ دینے کے افغان فیصلے کو ہوا دے رہا ہے یوں افغانستان اپنے تاریخی اتحادی سے دور ہوتے ہوئے ایک ایسی قوت کی آغوش میں جا رہا ہے جو اس خطے کے امن کو ایک نیا اور خطرناک رخ دے سکتی ہے اور یہ تعلقات کی نزاکت کو ایک غیر متوقع موڑ پر لے آیا ہے۔

ایک مکمل جنگ کی صورت میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان خونریزی کا نتیجہ اس پورے خطے کے لیے ایک بھیانک تباہی سے کم نہیں ہوگا۔ یہ دو برادر ہمسایوں کی جھڑپ ہوگی جن کے صدیوں پرانے نسلی، مذہبی اور ثقافتی رشتے اس سیاسی آگ میں جھلس کر رہ جائیں گے۔ اگر یہ تناؤ مکمل تصادم میں بدلتا ہے تو ڈیورنڈ لائن کے دونوں جانب انسانی المیہ جنم لے گا جہاں لاکھوں بے گناہ شہری مزید نقل مکانی پر مجبور ہوں گے۔ معاشی شہ رگیں کٹ جائیں گی اور پہلے سے کمزور معیشتیں مفلوج ہو جائیں گی۔ اس جنگ کی سب سے خطرناک شدت یہ ہوگی کہ یہ صرف دو ممالک تک محدود نہیں رہے گی بلکہ دہشت گردی کے جن کو مزید مضبوط کرے گی اور اسے علاقائی سرحدوں سے باہر نکل کر عالمی امن کے لیے ایک مستقل خطرہ بنا دے گی۔ یہ تباہ کن نتیجہ صرف ہتھیاروں کی نہیں بلکہ باہمی اعتماد، سفارتی تدبر اور خطے کے مجموعی استحکام کی شکست ہوگا جس کی قیمت آنے والی نسلوں کو بھی چکانی پڑے گی۔

اگر پاکستان برادرانہ تعلقات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے افغانستان کے لیے اپنی تمام زمینی راہیں یکسر مسدود کر دیتا ہے تو کابل کی قسمت ایک خوفناک معاشی تنگی اور قحط زدگی کی جانب مائل ہو جائے گی۔ افغانستان ایک لینڈ لاکڈ ملک ہے جس کا بیشتر انحصار اپنی ضروریاتِ زندگی تجارتی سامان اور عالمی امداد کی ترسیل کے لیے پاکستان کے بندرگاہی راستوں (خصوصاً کراچی اور گوادر) پر ہے۔

راہداری کی اس بندش کا سب سے شدید نقصان خوراک، ادویات اور دیگر بنیادی اشیاء کی فراہمی پر پڑے گا جس سے انسانی بحران مزید گہرا ہو جائے گا۔ افغانستان کی سرد اور سنگلاخ زمینیں جہاں کھیتیاں پہلے ہی محدود ہیں اس راستے کے منقطع ہوتے ہی عالمی تجارت کے بڑے دھارے سے کٹ جائیں گی۔ یوں یہ اقدام نہ صرف افغان معیشت کی بنیادی ساخت کو پاش پاش کر دے گا بلکہ یہ ایک ایسا تالا ہوگا جو لاکھوں افغانوں کو انسانی ضروریات کی زنجیروں میں جکڑ دے گا اور یہ ثابت کرے گا کہ جغرافیائی مجبوری کبھی کبھی تباہی کا سب سے بڑا ہتھیار ثابت ہوتی ہے۔

اگر افغان عبوری حکومت پاکستان کے ساتھ ٹیبل پر بیٹھ کر اپنے معاملات حل نہیں کرتی تو اس کا انجام بہت برا ہوگا افغانستان اگر اپنی ہٹ دھرمی سے باز نہیں آتا تو یہ بذات خود اپنے طویل مدتی تجارتی منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے میں رکاوٹ بنے گا اور ملک میں اپنی سرمایہ کاریوں کے تحفظ کو خطرے میں ڈال دے گا۔ دوسری طرف افغانستان کے لیے یہ جھڑپ ایک ایسا تباہ کن موڑ ثابت ہوگی جہاں اسے اپنے ہمسائے کی جانب سے معاشی شہ رگ بند ہونے کا خوف ہوگا جو پہلے ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار انتظامیہ اور بھوک و افلاس کے شکار عوام کے لیے ایک ناقابل تلافی ضرب ہوگی۔ اس جنگ کا نقصان صرف توپوں کی گرج اور سرحدوں کی بندش میں نہیں ہے بلکہ یہ علاقائی استحکام کے ایک نازک توازن کا ٹوٹنا ہے جہاں امن کے بجائے خونریزی اور ترقی کے بجائے پسماندگی کا دور دورہ ہوگا۔ یہ بربادی کی ایک مثلث ہے جس کی زد میں آ کر تینوں ممالک کسی نہ کسی شکل میں اپنا امن کھو دیں گے۔

​پاکستان اور افغانستان کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی پورے خطے کے امن و استحکام کے لیے شدید خطرہ ہے ایسے میں جنگ کے سائے ہٹانے اور دیرپا امن کی بنیاد رکھنے کے لیے علاقائی اور عالمی طاقتوں کا فعال کردار ناگزیر ہے۔ چین اور روس کو ایک غیر جانبدارانہ اور اسٹریٹجک سہولت کار کا کردار ادا کرنا چاہیے جہاں چین معاشی ترقی اور علاقائی رابطوں (CPEC اور BRI) کو امن کی ضمانت کے طور پر استعمال کرے اور روس سلامتی کے معاملات پر مشترکہ لائحہ عمل مرتب کرنے میں مدد کرے ان کا مقصد فریقین کو مذاکرات کی میز پر لانا اور اعتماد سازی کے اقدامات کو فروغ دینا ہونا چاہیے۔

​پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات اس نازک موڑ پر خطے میں امن کی نئی راہیں کھول سکتے ہیں۔ ان کوششوں کا مرکزی نقطہ سرحد پار دہشت گردی کا خاتمہ اور باہمی اعتماد کی بحالی ہے جو دونوں پڑوسی ممالک کے استحکام کی ضمانت ہے۔ پائیدار امن کی یہ جستجو نہ صرف علاقائی تجارت اور معیشت کو فروغ دے گی بلکہ جنوبی ایشیا کے مجموعی مستقبل کو ایک محفوظ اور خوشحال سمت دے سکتی ہے۔ تاہم ان مذاکرات کی کامیابی کا انحصار دیرینہ تحفظات کو پس پشت ڈال کر خلوصِ نیت کے ساتھ عملی اقدامات پر ہوگا تاکہ خطے میں جاری کشیدگی کی خلیج کو ہمیشہ کے لیے ختم کیا جا سکے۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan