Dora e Qatar Aur Iske Samrat
دورہ قطر اور اس کے ثمرات

گزشتہ روز قطر پر اسرائیلی حملہ ہر لحاظ سے قابل مذمت اور قابل بدلہ ہے۔ اسرائیل نے اس مختصر ترین وقت میں فلسطین، اردن، مصر، شام، لبنان اور بہت سے دوسرے مسلم ممالک کو اپنی بربریت کا نشانہ بنا چکا ہے۔ میں اپنے بہت سے کالموں میں عرض کر چکا ہوں کہ یہودی اپنے جھوٹے مسیحا دجال کے استقبال کی تیاری کر رہے ہیں جس سے قبل انہوں نے گریٹر اسرائیل بنانے کا اعلان کر رکھا ہے جس میں مڈل ایسٹ بہت سے عرب ممالک کچھ حصہ ترکی کا شامل ہے۔
ایران اور قطر پر حملے بھی اسی سلسلے کی کڑی ہیں کیونکہ اسرائیل کے خیال میں عرب ممالک کے حکمرانوں میں اتنی ہمت طاقت اور جرات نہیں ہے کہ وہ اسرائیل کے ناپاک ارادوں کے سامنے کوئی مضبوط ڈهال ثابت ہو سکیں ماسوائے ایران، ترکی اور پاکستان کے۔ گزشتہ چند روزہ جنگ میں ایران نے اسرائیل کو اپنی طاقت کا ہلکا سا نظارہ کروایا ہے۔ اسرائیل کی جب بھرپور چھترول ہو رہی تھی تو اس نے امریکہ کے ذریعے جنگ رکوائی لیکن پھر بھی باز نہیں آیا اور یہ اپنے جھوٹے مسیحا کی آمد تک پوری دنیا کو آگ میں جھلسانے کی کوشش کرتے رہیں گے۔
حماس کے چند عہدے داران کو قطر میں جنگ رکوانے کے لیے بلایا گیا اور پھر انہیں شہید کرنے کے لیے حملہ کر دیا گیا۔ اس حملے نے تمام عرب ممالک پر واضح کر دیا ہے کہ اسرائیل جب چاہے جہاں چاہے کسی بھی عرب ملک پر حملہ کرنے کی جرات اور طاقت رکھتا ہے۔
بہت سے عرب ممالک نے اپنی سکیورٹی امریکہ کے حوالے کی ہوئی ہے امریکہ سے جنگی اور دفاعی ساز و سامان کی مد میں اربوں ڈالر خرچ کیے ہوئے ہیں۔ اسرائیل کے بغیر روک ٹوک حملے کے بعد عربوں کو اب ہوش کے ناخن لینے ہوں گے کیونکہ سکیورٹی کی ذمہ داری امریکہ کی اور حملہ کرنے والا امریکہ کا مرشد تو پھر روکنا کس نے تھا اور جب تک عرب ممالک امریکہ سے دفاعی معاہدے ختم کرکے امریکیوں کو اپنے ممالک سے نکال نہیں دیتے تب تک مختلف شکلوں میں حملے جاری رہیں گے۔
جب قطر میں غم و غصے اور خوف کی فضا تھی تو اس وقت حکومت پاکستان نے ہمیشہ کی طرح انتہائی دلیرانہ قدم اٹھایا اور وزیراعظم پاکستان فوری طور پر ایک روزہ دورے پر قطر روانہ ہو گئے۔ وزیراعظم کے اس دورے نے قطری عوام کو یہ پیغام دیا ہے کہ حالات جیسے بھی ہوں پاکستان ہمیشہ ان کے ساتھ رہے گا۔ یہ دورہ پاکستان کی طرف سے قطری عوام اور حکومت کے ساتھ اظہار یکجہتی اور تعلقات کو مزید مضبوط اور مستحکم کرنے کے لیے تھا۔
اس کے ساتھ اقوام متحدہ، سلامتی کونسل اور ہر بڑے پلیٹ فارم پر پاکستان کی طرف سے واضح پیغام پہنچانا بھی تھا کہ اسرائیل جب بھی کسی مسلم ملک پر حملہ کرے گا تو پاکستان کو اپنا مخالف پائے گا اس لیے ضروری ہے کہ تمام مسلم ممالک کے سربراہان ہوش میں آ جائیں اس سے پہلے کہ بیڑا غرق ہو جائے اور فیصلہ کر لیں کہ اپنے اپنے ملکوں کو امریکیوں کے چنگل سے آزاد کیسے کروانا ہے۔ اگر تو یہ ایک دوسرے کو تباہ ہوتا دیکھتے رہے اور سوچتے رہے کہ تباہی صرف انہی کے ممالک کی ہونی تھی تو سب یقین کر لیں کہ تباہی ان کے سب کے دروازوں پر کھڑی ہے۔
قطر کے رد عمل کا انحصار پندرہ ستمبر کی میٹنگ پر تھا، الحمدللہ تمام مسلم ممالک کی سمجھ میں یہ بات آ گئی ہے کہ ہمیں اکٹھا ہونا ہوگا۔ امیر قطر نے اپنی تقریر میں اسرائیل کے گریٹر اسرائیل پلان کی دھجیاں اڑا دی ہیں اور شاید ان کی اس تقریر سے سب سے زیادہ خوش ہونے والا بندہ میں خود ہوں گا اور دعا گوہ ہوں کہ اب یہ تقریر صرف الفاظ کی حد تک نہ رہے۔ لیکن یہاں پر ایک غلطی بھی ہو رہی ہے، عرب ممالک صرف عرب ممالک پر مشتمل فوج تشکیل دینا چاہتے ہیں لیکن یہ فیصلہ غلط ہوگا اور یہ فوج نیٹو کی نسبت ایک کمزور فوج ہوگی اس لیے انہیں چاہیے کہ تمام مسلمان ممالک بشمول چین، روس، شمالی کوریا اور باقی جتنے ممالک اسرائیل سے نفرت کرتے ہیں اپنے ساتھ شامل کرکے فوج تشکیل دیں تاکہ چین، ترکی، کوریا اور پاکستان کی ٹیکنالوجی سے اس نئی بننے والی فوج کو مضبوط کیا جا سکے۔
اسی میں سب کی بقاء ہے کیونکہ امریکہ کا جو دوست بنا یا جس کا امریکہ دوست بنا اس کی بربادی اور تباہی یقینی ہوگئی۔ اس کی مثال پاکستان اور ہندوستان سب کے سامنے ہے کہ جب پاکستان امریکہ کا دوست تھا تب پاکستان کی بربادی ہو رہی تھی اور جب ہندوستان نے یہ فضیلت حاصل کرنے کی کوشش کی تو اسے تباہ و برباد کر دیا گیا۔
جب میاں نواز شریف صاحب پہلی بار وزیراعظم پاکستان بنے تو امریکہ کے دورے پر گئے اور وہاں پہ ان کی ملاقات ہینری کسنجر سے ہوئی نواز شریف نے سوال کیا کہ ہمیں کیا کرنا ہوگا کہ امریکہ ہم سے خوش رہے ہینری کسنجر نے بڑا دلچسپ جواب دیا انہوں نے کہا کہ اگر تو آپ امریکہ کے دوست بن گئے تو آپ کی تباہی یقینی ہے اور اگر امریکہ کے دشمن بن گئے تب بھی تباہی یقینی ہے تو پھر آپ کو میانہ روی اختیار کرنی ہوگی لیکن ہم نے ایسا نہ کیا ہم نے دوستی کو مزید مستحکم کرنے کے لیے اپنا پورا ملک برباد کر لیا ہزاروں کی تعداد میں قیمتی جانیں گنوا دیں لیکن امریکہ کی طرف سے ایک ہی مطالبہ رہا ڈومور اور اس وقت تک پاکستان کی جان نہیں چھوٹی جب تک پاکستان نے یہ نہیں کہا نومور۔
وزیراعظم پاکستان کے اس دورے نے قطر سمیت تمام عرب ممالک میں پاکستان کی عزت اور عرب ممالک سے محبت کو مزید تقویت دی ہے اور انہیں احساس ہوگیا ہے کہ جب تک امت مسلمہ اکٹھی نہیں ہوگی تب تک سیہونی فوجیں ظلم کے پہاڑ توڑتی رہیں گی۔
قطر نے اب تک امریکہ پر دولت کی بارش کیے رکھی ہے اور امریکہ قطر میں خوف کی خرید و فروخت کرکے اپنا سامان جنگی بیچتا رہا۔ میری ریسرچ کے مطابق اب تک قطر نے امریکہ سے جدید ایئر ڈیفنس سسٹم، پیٹریارٹ پی اے سی تھری سسٹم جو درمیانے درجے کے بیلسٹک اور کروز میزائلوں اور طیاروں کو روکنے کی صلاحیت رکھتا ہے، این اے ایس اے ایم ایس ٹو ایک درمیان فاصلے کا فضائی دفاعی نظام جو فضائی حملےاور کروز مزائلوں ڈرونز اور طیاروں کو نشانہ بنانے کے لیے بنایا گیا تھا اس کے علاوہ جدید فرانسیسی رافال ایف 15، ایف 15 ای نیول ڈیفنس سسٹم اور بے شمار ڈیفنس سسٹم خریدے لیکن حیران کن طور پر یہ سارے سسٹم اسرائیلی حملے کو نہ روک سکے اور نہ ہی اس کی نشاندہی کر سکے۔ یہ ساری واردات کا مطلب صاف ظاہر ہے کہ کتی چوروں سے ملی ہوئی تھی۔
قطر پر لازم ہو چکا ہے کہ اب جتنی جلدی ممکن ہو اپنے ملک سے امریکیوں کو نکال دیں اور امریکہ میں کی جانے والی 150 ارب ڈالر کی انویسٹمنٹس کے تمام معاہدے منسوخ کر دیں اور فوری طور پر پاکستان سے رابطہ کرکے معاہدہ کریں۔ اپنے بادشاہی نظام اور اپنے ملک کی سکیورٹی پاکستان کے حوالے کر دیں۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر قطر اپنے دفاعی بجٹ کا آدھا بھی پاکستان کے سامنے رکھتا ہے تو پاکستان سے معاہدہ ہو سکتا اور انشاءاللہ پھر اسرائیل تو کیا چیز دنیا کا کوئی ملک بھی قطر کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی جرات نہیں کرے گا۔
اس سے بھی پہلے اپنی خفیہ ایجنسی کو فوری طور پر ایکٹو کریں، تمام غیر ملکیوں کی سکریننگ دوبارہ سے کریں اور اگر مدد کی ضرورت ہو تو پاکستان سے حاصل کریں۔ امید ہے کہ بہت سے انڈین جو تاجروں کے روپ میں قطر میں موجود ہیں ریڈار میں آ جائیں گے انہیں فوری طور پر ملک بدر دیں۔
آپ کو یاد ہوگا کہ جس طرح ایران نے حملے کے بعد تقریباََ چار سو کے قریب ہندوستانیوں کو پکڑا تھا جو بیک وقت راء اور موساد کے لیے جاسوسی کا کام سر انجام دے رہے تھے۔ قطر میں حملہ بھی جاسوسی کے بغیر نہیں ہوا اور عین ممکن ہے کہ وہ جاسوسی بھی ہندوستانی پاسپورٹ رکھنے والوں نے کی ہو اس لیے انہیں فوری پکڑ کر ان سے تفتیش کریں اگر ایسا ہو جاتا ہے تو اسرائیل جاسوسوں کی ایک بڑی تنظیم سے محروم ہو جائے گا اور اس کے ساتھ ساتھ قطر پر لازم ہو چکا ہے کہ اسرائیل کو اتنا زبردست جواب دے کہ وہ دوبارہ صدیوں تک قطر کیا کسی بھی عرب ملک پر حملہ کرنے کی جرات نہ کر سکے۔ میرے خیال میں وزیراعظم پاکستان کے دورہ قطر کے ثمرات انشاءاللہ بہت جلد سامنے آنا شروع ہو جائیں گے۔

