Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sidra Shaikh
  4. Tum Bohat Khubsurat Ho (1)

Tum Bohat Khubsurat Ho (1)

تم بہت خوبصورت ہو (1)

"کہتے ہیں زندگی کتنی بھی تلخ کیوں نہ رہی ہو، ہمسفر اچھا ہو تو زندگی خوبصورت بن ہی جاتی ہے۔ مگر میرے ساتھ اس معاملے میں کافی زیادتی کی گئی تھی۔ میری خوبصورت زندگی کو میرے والدین اور بہن بھائیوں نے سیاہ رات سا سنگین کر کے رکھ دیا تھا۔ سیاہ، سنگین، ایسے سیاہ رنگ کے ساتھ جو کہ میری ہونے والی بیوی کی پہچان تھا۔

"زاران بیٹا چلو جلدی سے تیار ہوجاٶ میرے چاند سے بیٹے"۔

امی نے میرے ہاتھ میں شادی کا ڈریس تھما کر ماتھے پر بوسہ دیا تھا۔

" آپ کا بیٹا واقعی چاند جیسا خوبرو ہے پھر بھی آپ اپنے چاند کو گرہن لگانے جارہی ہیں بھابھی۔ میری بیٹی میں کیا کمی تھی؟"

امی کی بھاوج ہمدردی بھری نظروں سے مجھے دیکھتے ہوئے بولیں اور امی کی طرف سے کچھ بھی جواب آنے سے پہلے تاسف سے سر ہلا کر وہاں سےچلی گئی تھیں۔ مگر ان کی بات نے مجھے اپنی ماں سے سوال کرنے کی ہمت عطا کر دی تھی۔ اگرچہ میں پہلے بھی کافی احتجاج کر چکا تھا مگر میری ہر آواز جیسے صدا بصحرا ثابت ہوئی تھی جو واپس مجھ تک ہی لوٹ آتی تھی۔

کسی دوسرے کو جیسے سنائی ہی نہیں دیتی تھی۔ یا پھر سب نے جان بوجھ کر میری التجا نہ سننے کی ٹھان رکھی تھی، مگر آخری کوشش کے بطور میں اب بھی ایک بار امی سے بات کرنے کا خواہاں تھا۔ شاید کوئی راستہ نکلے۔ شاید میری خزاں رسیدہ ہو چکی ذہنی یورش میں بہار کی امید جگا دی جائے۔

"امی کیا۔ کیا یہ فیصلہ بدلا نہیں جا سکتا؟ کیا میں نایاب کی جگہ عروج سے شادی نہیں کرسکتا؟ آپ میرا نہیں میرے سٹیٹس کا ہی خیال کر لیجئے۔ لوگ کیا سوچیں گے؟ میرے دوست تو مذاق بنائیں گے۔ میں اسے کہیں لے جا بھی نہیں سکوں گا"۔

اپنی ناپسندیدگی کو میں نے الفاظ کا روپ دے کر امی کو قائل کرنے کی کوشش کی۔

"تو کس نےکہا کہ اسے کہیں باہر لے کر جانا؟ گھر میں رکھنا کام کاج کرے گی گھر کا کچن سنبھالے گی۔ ہمارے بھی چند ایک کام کردیا کرے گی"۔

"امی؟

میں حیرت سے ان کا منہ تکتا رہا۔

اس وقت میں سمجھ گیا تھا کہ سب کا مقصد کیا تھا؟ انہیں بہو نہیں گھر کے کام کاج کے لیے ایک نوکرانی چاہیے تھی"۔کیا گھر کے کام اتنے اہم ہیں کہ ان کی اچھی طرح تکمیل اور آرائش و زیبائش کے لیے انہوں نے اپنے بیٹے کی زندگی کو بھی داٶ پر لگا دینے کی ٹھان لی تھی؟ میں اس وقت تک خاموش رہا جب مجھے گھر کی مجبوریوں کے لیے قربان کیا جانا تھا۔ بہت سوں سے سن گن لی تھی میں نے۔

میں غم و فکر میں ساکت نہیں بیٹھا رہا تھا۔ آرزوٶں کے ماتم کو میں نے اظہار کی شکل نہیں دی۔ اپنی کوشش میں میں کامیاب رہا۔ میری زندگی کا فیصلہ امی نے آنے والے دنوں کی متوقع مشکلات کو سوچ کر کیا تھا جو خود ان کو پیش آنے والی تھیں۔ ان کی سوچ تھی کہ خوبصورت بہو اکثر حکم عدولی کرتی ہے۔ اسے کام کاج سے کوئی غرض نہیں ہوتی بس خرچ کرنے کے لیے رقم اور آرام کے لیے بیڈ درکار ہوتا ہے۔

ان کی یہ سوچ مجھے معلوم تھا کہ خود ان کو اپنے ہی ماضی کا آئینہ دکھا رہی تھی۔ امی نے کبھی عجز کو خود میں شامل نہیں کیا تھا۔ دادی کے سامنے منہ پھٹ اور ابو کے سامنے تلخ گو رہی تھیں۔ ابو ہمیشہ پریشان اور دادی ان کے رویے پر آنسو بہاتی رہتی تھیں۔ اب ظاہری سی بات تھی کہ جو کچھ انہوں نے دادی کے ساتھ کیا اب میری شادی کی صورت میں ان کے ساتھ بھی پیش آ سکتا تھا۔

یہی وجہ تھی کہ انہوں نے میری شادی کسی ایسی لڑکی سے کرنے کا سوچ لیا تھا جو اللہ میاں کی گائے ہو۔ کچھ بھی کہا جائے جواب میں کچھ نہ بولے۔ اس صورت میں میری زندگی تو جو عذاب بنتی سو بنتی مگر امی مکافات عمل اور دادی کے ساتھ کی گئی ناانصافیوں کا بدلہ پانے سے بچ جاتیں۔ اور یہ اس صورت میں ممکن ہوتا جب ان کی بہو کچھ عیب دار ہوتی۔

اس میں کوئی ایسی خامی ہوتی جو اس کے احساس میں کچوکا بن کر ٹھہر جاتی۔ بالفاظ دیگر انہیں بہو نہیں بلکہ جھونپڑی کا مقدر لے کر محل میں رہنے کی قسمت پا جانے والی اطاعت گزار باندی چاہیے تھی۔ جو ہر دم ان کی شکر گزار رہے۔ ان کے طعنے کوسنے سننے کے بعد بھی مصلحت کی چپ اوڑھے رکھے۔ تکلیف دہ سوچوں کے بھنور میں ڈوبتے ابھرتے آخر نکاح کا دن بھی آ گیا۔ مولوی صاحب نے جب تک جواب طلب نہیں کیا تب تک میں خاموش رہا تھا۔

"قبول ہے"۔

مولوی صاحب کے استفسار پر میں نے بہ آہستگی اس انداز میں کہا جیسے ان کا پڑھایا سب ان کے سامنے دہرا رہا ہوں۔ تین بار یہ الفاظ دہرائے گئے اور میری زندگی بدل کر رہ گئی۔ رخصی کے وقت مجھے مبارک باد کی جگہ بہت سے رشتے داروں سے خاص طور پر فی میل کولیگ سے بہت ہمدردی اور ترس بھری باتیں سننی پڑیں۔

میں چاہتا تو بیڈروم میں جاتے ہی اپنا غصہ اس لڑکی پر اتار سکتا تھا جو میرے پھولوں سے سجے بیڈ پر میری نئی نویلی دلہن بنی بیٹھی تھی۔ مگر میں چپ رہا۔ دس بجے سے رات ایک بجے تک ہم دونوں خاموش رہے۔ میں سامنے صوفہ پر بیٹھا اور وہ بیڈ پر بیٹھی رہی تھی۔ تین گھنٹوں کے طویل وقت تک سکوت کی خلیج ہم دونوں کے درمیان حائل رہی تھی۔

گھونگھٹ ابھی بھی اس چہرے کو چھپائے ہوئے تھا۔ وقت کی مصلوب گھڑیوں میں میرے اعصاب کے تشنج نے مجھے تھکا دیا تھا۔ اس سے پہلے کہ بیٹھے بیٹھے میں بے احساس اور جامد سا ہو جاتا، اور اس کا گھونگٹ خدشہ تھا کہ تمام رات یونہی اس کے چہرے کو مستور کیے رکھتا، میں نے وہ حرکت کی کہ جس کا پچھتاوا مجھے ساری زندگی رہنے والا تھا۔

"اٹھ کر یہاں آؤ"۔

میں نے کھڑا ہوتے ہوئے کہا تھا۔ یہ اس سے میرا پہلا کلام تھا۔ گھونگھٹ لرزا اور اس نے یکبارگی جھرجھری لی۔ اس کے وجود کے سکتے میں میری آواز نے جیسے زلزلہ برپا کیا تھا۔ وہ جیسے جیسے اٹھتی زمین پر پاؤں رکھ رہی تھی کمرے میں کلائی کی چوڑیوں سے لےکر پاؤں کی پائل کی جھنکار ایک الگ ہی سما باندھ چکے تھے۔

"جی"۔

اس کی آواز۔ وہ ڈری ہوئی سہمی ہوئی آواز جو ایک سرگوشی سے زیادہ نہ تھی۔ یوں جیسے مہر بہ لب انسان کی قوت تکلم سے یکدم پہرے ہٹا دیے گئے ہوں۔ ایسی بے یقینی تھی اس کی آواز میں۔

"یہاں آؤ اس شیشے کے سامنے"۔

میں غصے سے بولا تھا وہ گھبرا کر تیز قدموں سے میری طرف بڑھی اور جب اپنے ہی لہنگے سے اٹک کر گرنے لگی تو میں نے اسے تھام لیا۔ اس عمل میں میرے ارادے کو کوئی دخل نہیں تھا۔ سو مجھے اپنی طبیعت کے کچھ منافی ہونے کا احساس ہوا اور اگلے ہی پل میں نے اسے گرا دیا۔ میں نے دوبارہ سختی سے اسے اٹھایا اور اب کی بار میں اسے اس کی ہی نظروں میں گرانا چاہتا تھا۔ میں اسے کھینچتے ہوئے شیشے کے سامنے لے گیا اور چہرے سے اس کا گھونگھٹ ہٹا دیا۔

"میری ماں مجھے چاند کہتی آئیں۔ مجھے پتہ نہیں تھا وہ سچ میں چاند سمجھ کر تمھارے روپ میں مجھے گرہن بھی لگا سکتی ہیں۔

وہ نظریں جھکائے خاموش کھڑی رہی میں جانتا تھا میں اسے تکلیف دے چکا ہوں۔ بہت گہرا زخم جو آگے چل کر بھرنا نہیں تھا گہرا ہی ہونا تھا۔

"میں ایک کامیاب بزنس مین ہوں، پڑھا لکھا ہوں، خوبصورت ہوں۔ ذرا دیکھو شیشے میں مجھے۔ کیا کمی ہے مجھ میں؟ دیکھو اس شیشے میں اور بتاؤ، کیا میں تمہیں ڈیزرو کرتا ہوں؟"

"میں آپ کو ڈیزرو نہیں کرتی زاران۔ مجھے اپنے نصیب پر حیرت ہورہی ہے اللہ نے کہاں سے اٹھا کر کہاں بٹھا دیا مجھے؟ میں چند خوشیاں مانگتی آئی۔ اللہ نے آپ کی صورت میں مجھے مکمل جہاں سے نواز دیا"۔

وہ بولی تو جھجھک سے پاک اور شفاف لہجے نے مجھے متاثر کیا تھا۔ مجھے امید تھی کہ وہ کچھ بول نہ سکے گی، میرے قدموں میں گر کر معافیاں مانگے گی، روئے گی۔ مگر اس نے جتنا رشک اس وقت ہمارے رشتے اور مجھ پر کیا میں لاجواب ہوکر رہ گیا۔

"تم"۔

مجھ سے کچھ بن نہیں پڑا تو میں بس اسے مخاطب ہی کر کے رہ گیا۔ اور بہت کچھ جو میں نے سوچ رکھا تھا یاد کر کے کہنا ہی چاہتا تھا کہ چھوٹی بہن کی آواز ہمارے درمیان مخل ہوئی۔

"نایاب بھابھی۔ امی بلا رہی ہیں آپ کو"۔

میں کچھ قدم پیچھے ہوا اور گھڑی کی طرف دیکھا۔ دو بجنے والے تھے۔

"امی کو اس وقت کیا کام پڑ گیا؟

میں غصے سے کہنا چاہتا تھا مگر صرف سوچ کر رہ گیا۔ کہتے کہتے رک گیا تھا۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ آج کے دن کسی پر بھی اپنا غصہ اتاروں۔ مہمان ابھی بھی گھر میں موجود تھے۔

"تم جاؤ۔ امی کی بات سن کر آؤ"۔

اپنے کپڑے الماری سے نکال کر میں باتھ روم میں چلا گیا تھا۔ کچھ دیر میں واپس آیا تو وہ جاچکی تھی پھولوں کی پتیوں کو بستر سے جھاڑ کر میں اپنی سائیڈ پر آنکھیں بند کر کے لیٹ گیا تھا۔ اسی عالم میں تین بج گئے جب میں نے حیرانی سے خالی کمرے کودیکھا اور بال ٹھیک کیے تھے، کمرہ خالی تھا۔ میں امی کے کمرے کی طرف چل دیا تھاہر طرف اندھیرا تھا خاموشی کا راج تھا، سب اپنے اپنے کمروں میں گہری نیند سو رہے تھےاور جب امی کے کمرے کا دروازہ کھولا تو وہ بھی سو رہی تھی۔

مگر وہ لڑکی جو کچھ گھنٹے پہلے رشتہ ازدواج میں میرے ساتھ منسلک ہوئی وہ امی کے پاؤں دبا رہی تھی۔ میں کبھی گھڑی دیکھ رہا تھا تو کبھی اسے۔ اتنے بھاری بھرکم کپڑوں میں وہ بیٹھی تھی۔ ایک پل کے لیے میرے دل میں رحم آیا میں چاہتا تھا اسے کہوں کہ کپڑے بدل کر واپس آجائے مگر، میں اسے کوئی نئی امید نہیں دینا چاہتا تھا۔ میں واپس آکر لیٹ گیا۔ کچھ دیر بعد میں دوبارہ سو گیا۔ آنکھ جب کھلی تو اسے جائے نماز پر فجر کی نماز پڑھتے ہوئے پایا۔

نماز میں اس کی محویت نے مجھے اس منظر میں محو کرنا چاہا تھا۔ مگر کچھ پل ہی اسے دیکھ کر میں نے پھر سے آنکھیں بند کر لی تھیں۔ دل تھا کہ اس منظر کی خوبصورتی میں گھرا رہنا چاہتا تھا۔ آنکھوں کو شوق دید کی طرف متوجہ کر رہا تھا مگر دماغ کی اس دلیل پر میں نے اپنی خواہش کو تھپک تھپک کر سلا دیا کہ ہو سکتا ہے میری نظروں میں اپنا مقام پیدا کرنے کے لیے وہ یہ سب کر کے دکھانا چاہتی ہو۔

Check Also

Netherlands

By Zaigham Qadeer