Ruswa e Zamana (1)
رسواء زمانہ (1)
"جس رشتے میں یقین نہ ہو جن آنکھوں میں اعتماد نہ ہو اور جس دل میں محبت نہ ہو تم ایسے رشتے پر وقت ضائع کررہے ہو اشرف۔ وہ بیوی ہی جب تمہیں خوشیاں نہیں دہ رہی تو فارغ کردو۔ "
میں دوست کے مشورے پر دنگ رہ گیا اور اس سے زیادہ حیران مجھے اشرف کی اس ہاں نے کیا "میں بھی سوچ رہا ہوں فارغ کردوں۔۔ جب سے شادی کی زندگی عذاب بن گئی ہے"۔
چائے کا کپ رکھ کر میں نے ان دونوں کی چہروں کا بغور جائزہ لیا کہ کہیں کوئی مذاح کا کوئی ایک تاثر مل جائے مگر مجال ہو جو ایسے ظاہر کیا ہو وہ دونوں تو سنجیدگی سے مشورہ دہ اور لے رہے تھے ایک دوسرے سے کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد میں نے لب کھولے اور زبان پر جو آیا بول دیا مجھے فکر نہیں تھی دوست کی ناراضگی کی۔۔
مجھے فکر تھی تو اسکا گھر ٹوٹنے کی۔۔
"احتشام سے پوچھ لو وہ بھی یہی کہے گا۔۔ وہ تو ایسی بد زبان عورتوں کو پسند ہی نہیں کرتا"
"اور یہ کس نے کہا تم سے؟ میں کیونکر ایسی سوچ رکھوں گا؟ کیا میں نے کبھی ایسا تذکرہ کیا تھا واجد؟"
احتشام کے لہجے میں تلخی آئی تو واجد نے بات ٹال دی
"اشرف میں جو کہتا ہوں۔۔"
"اشرف۔ جب نکاح کیا تھا ہم دوستوں کو ساتھ لیکر گیا تھا بیوی پسند کرنے کے لیے؟
شادی کے تین سال کب کب ہم دوستوں سے مشورہ لیا تھا؟ کب کب بیوی کے قریب گئے تھے ہم سے پوچھ کر؟"
"احتشام میں لحاظ کررہا ہوں۔۔"
اشرف نے وارننگ دیتے ہوئے بات کو کاٹ دیا تھا "وہ تمہاری بیوی ہے عزت ہے۔۔ فارغ کردینے جیسا لفظ برداشت ہورہا مگر میری بات نہیں؟ بات کو سمجھو عورت ذات کیا اتنی ہی فالتو ہے کہ کچھ برا لگ رہا تو فارغ کردو؟"
"وہ بدزبان ہے احتشام۔ یہ کتنا برداشت کرے گا؟"
"یہ مرد ہے جتنا برداشت کرسکتا ہے اسے اتنا تو برداشت کرنا چاہیے نہ؟ اشرف اگر دوسری بیوی اس سے زیادہ بدلحاظ ہوئی تھی؟ اسی سفر کے مسافر بنے رہ جاؤ گے۔۔
یا تو اپنی بیوی کے رنگ میں ڈھل جاؤ یا اسے ڈھال لو۔۔"
وہ بات مکمل کرکے وہاں سے چل دیا تھا آفس بیگ پکڑے وہ اس کیفے سے باہر نکل آیا تھا۔۔
ان تین دوستوں کی عادت تھی ویک اینڈ پر وہ ایسے ہی ملتے تھے گپ شپ لگاتے تھے۔ اتنے سالوں کی دوستی میں پہلی بار اس دوست نے ایسے اپنی ازدواجی زندگی کو شئیر کیا جو احتشام کو بالکل پسند نہ آئی۔۔
وہ گاڑی میں بیٹھے گھر کی جانب موڑ چکا تھا۔ راستے میں اپنی پسندیدہ پھولوں کی دکان پر رک کر اسے نے گجرے لئیے تھے جو ہر شام لیتا تھا وہ شادی کو ایک سال سے زائد ہوگیا تھا پر اسکے یہ شوق مدھم نہیں پڑے تھے۔
احتشام گھر کی حدود میں جیسے داخل ہوا چہرے پر مسکان چھا گئی تھی والدہ کا چہرہ دیکھ کر وہ وہیں ہال میں رک گیا تھا اپنے بیڈروم میں جانے کے بجائے۔۔
٭٭٭
"ہمیں کب خوش خبری ملے گی احتشام اب تو حارث بھی آگے نکل گیا ہے تمہارے بعد شادی ہوئی تھی۔۔"
"ہاہاہا امی جان میں نے کونسا شرچ رکھی تھی آپ جانتی ہیں نہ میں ان معاملات میں معاشرے والی سوچ نہیں رکھتا۔۔ میں نازنین پر کوئی پریشر بھی نہیں ڈالنا چاہتا۔۔"
والدہ کچھ پل کے لیے خاموش ہوگئی پر بہن چپ نہ ہوئی۔۔
"احتشام بھائی۔۔ ہم جانتے ہیں بھابھی سے آپ کی شادی پسند کی ہے پر اب تو رشتے دار بھی پوچھنے لگے ہیں۔۔ میری ساس ہر دو دن بعد پوچھتی ہیں۔۔ اور آپ جانتے ہیں جب لوگ باتیں بنانے پر آئیں تو لحاظ بھی نہیں کرتے"
"میں ابھی بات نہیں کرنا چاہتا۔۔"
میں وہاں سے اٹھ کر بیڈروم کی جانب چلا گیا۔۔ ہمیشہ کی طرح بیگم کو شیشے کے آگے سجتے سنورتے ہی پایا۔۔ میں نے ہر شام کجرے لانے کے وعدے کو نبھایا اور اس نے میرے لیے ہر روز تیار ہونے کے اپنے وعدے کو۔۔
یہ ہمارا رشتہ تھا۔۔ اور میں بہت خوش تھا اپنی زندگی میں۔۔ شروع شروع میں گھر والوں کو میری پسند بالکل پسند نہیں تھی کیونکہ امی اپنی بھانجی سے میری شادی بچپن میں تہہ کرچکی تھی۔۔
جب میں نے اپنی خواہش کا اظہار کیا تو بہت لڑائی ہوئی تھی آج بھی یاد ہے جب میں نے اپنی ضد منوا لی تھی امی سے۔۔
۔
اب تو میری بیگم سب کے دلوں میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہورہی ہیں۔ اب زندگی میں کوئی پریشانی نہیں سوچ رہا ہوں اماں والی بات بیگم کو بتا کر اس رضا مندی حاصل کروں۔۔
دروازہ آہستہ سے بند کرکے جیسے ہی بیڈروم میں داخل ہوا بیگم کا مسکراہٹ بھرا شیشے میں سنورتے ہوئے صاف دکھائی دہ رہا تھا
"نازنین۔۔"
"گجروں کی خوشبو بتا دیتی ہے آپ آگئے۔۔ کبھی بھولتے کیوں نہیں ہیں آپ؟" ہاتھ آگے بڑھا کر اس نے جیسے ہی گجرے مانگیں میں نے ہمیشہ کی طرح خود پہنائے اسے، ایسا کیسے ممکن تھا میں ہماری شادی کے بعد کی اس روایت کو ترک کرتا؟
"تم نے کبھی سجنا سنورنا چھوڑا میرے لیے؟ تو میں کیسے بھول سکتا ہوں؟"
"یہ ہمارے رشتے کی بنیاد ہیں میری محبت آپ کی عزت۔۔"
"ارے بیگم محبت میری طرف سے ہے۔۔"
"ہاہاہا۔۔"
کچھ دیر دن بھر کی باتیں کرنے کے بعد رات کے کھانے کے لیے نیچے چلے گئے۔۔
اور وہی ہوا جو بات میں کرنا چاہتا تھا وہ امی نے دہرا دی۔۔ اور نازنین اس نے بہت احسن طریقے سے امی کی بات پر حامی بھری میری یہ بھی پریشانی ختم ہوگئی کیونکہ میں اپنی بیوی پر کسی قسم کا پریشر نہیں ڈالنا چاہتا تھا کسی بات کے لیے پابند نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔
٭٭٭
"یہ کیسے ممکن ہے؟ آپ ایک بار پھر سے رپورٹ دیکھیں۔۔ میم پلیز۔۔"
لیڈی ڈاکٹر نے ترس بھری نگاہوں سے دیکھا "دیکھیں احتشام بھائی۔۔ میں فیملی ڈاکٹر ہوں میں نے ایک بار نہیں دو بار تصدیق کروائی ہے۔۔ ایم سوری۔۔"
میں وہ کاغذ جنہوں نے ہماری خوشیوں کا ہمارے مستقبل کا فیصلہ کرنا تھا وہ لیکر کلینک سے باہر آگیا تھا۔۔
کچھ لمحوں کے لیے دماغ ایسے سن ہو گیا میرا کہ سمجھ نہ آئی کیا کروں کہاں جاؤں کس سے اپنا دُکھ بیان کروں۔۔ ہم دونوں تو بچے کا انتظار ایسے کررہے تھے لمحے صدیوں جیسے لگ رہے تھے ہمیں۔۔ اور اب یہ رپورٹ میں کیسے بتاؤں گا گھر میں سب اور نازنین۔۔ وہ وہ تو برداشت نہیں کرپائے گی۔۔ میری بیگم بہت حساس ہے وہ کبھی برداشت نہیں کرپائے گی۔۔
کچھ دیر وہیں ویران جگہ بیٹھنے کے بعد میں نے ایک فیصلہ کرلیا تھا ایک حتمی فیصلہ، اور وہ رپورٹ پھاڑ کر پھینک دی تھی۔
میں سچ بتا دوں گا۔۔ جو ہوگا دیکھی جائے گی۔۔ نازنین کو تکلیف نہیں دینا چاہتا وقتی جھوٹ کم سے کم تکلیف دہ گا۔۔
٭٭٭
"امی میں۔۔ میں باپ نہیں بن سکتا۔۔ اللہ نے مجھے محروم کردیا ہے۔۔"
"کیا نازنین؟"
"نہیں۔۔ بالکل نہیں۔۔ میں ہوں جس سے یہ نعمت چھین لی گئی امی میں ہوں جس میں یہ کمی ہے۔۔"
امی مجھے اپنے گلے لگا کر رونے لگی اور نازنین وہ ہمدردی بھری نگاہوں سے مجھے دیکھ رہی تھی ان نگاہوں میں دنیا جہاں کی تسلیاں تھی۔۔ اور اس رات کے بعد نازنین کی محبت میرے لیے اور بڑھ گئی وہ پہلے سے زیادہ میرا خیال رکھنے لگی تھی پہلے سے زیادہ محبت بڑھ گئی تھی۔
میں خوش تھا بہت خوش۔۔ پر دل میں ڈر بھی تھا۔۔ یہ وہ سچ تھا جو پتہ چلنے کے کچھ سال تک تو محبت جگا دیتے ہے اور بعد میں ضرورت محبت سے آگے ہوتی ہے، اب دل میں ڈر تھا کہیں نازنین کے دل میں حصول اولاد کی خواہش ہماری محبت کم نہ کردے۔۔
زندگی میں میں بےخوف جیا کیونکہ میں جانتا تھا جس بات کا ڈر زیادہ ہو وہ سچ ہوجاتی ہے۔۔
اور ایک دن ایسا ہی ہوا۔۔
مائیکے سے واپس آکر میری نازنین میری بیگم نے وہ چیز مانگ لی جس کا کبھی بُرے خواب میں بھی نہ سوچا ہو
"طلاق۔۔ علیحدگی۔۔ جدائی۔۔"
"نازنین آرام سے بیٹھو اور میری بات سنو۔۔"
"نہیں احتشام۔۔ آج بھی باقی دنوں کی طرح آپ مجھے راضی کرلیں گے ساتھ رہنے کے لیے۔۔ محبت سب کچھ نہیں ہوتی احتشام۔۔"
"میرے لیے سب کچھ رہی تمہاری محبت۔۔ اور اگر محبت سب کچھ نہیں ہوتی تو یہ میاں بیوی کا رشتہ تو ہے نہ؟ نازنین ساتھ رہیں گے تو۔۔"
ہاتھ جھٹک کر بیگم نے ایک بات واضح کردی تھی کہ میرے ہنستا بستا گھر بکھرنے کے در پہ تھا "نازنین بات سنو۔۔"
"میں جارہی ہوں احتشام امی ابو نے کہہ دیا ہے کہ میں خلا لے لوں۔۔ میں نے بہت سوچنے کی کوشش کی مگر میں اولاد جیسی نعمت کو ٹھکرا نہیں سکتی۔۔ میں ماں بننے کا سُکھ حاصل کرنا چاہتی ہوں پلیز۔۔"
اسکی آنکھیں بھر آئی تھیں اور میں جو سر جھکائے اپنے آنسو چھپا رہا تھا اس سے۔۔
سچائی بہت تلخ تھی بہت زیادہ میں کیسے اسے سچ بتاؤں گا؟
میں کیسے اسے طلاق دے دوں؟ میری دسترس سے نکلی تو اسے یہ دنیا اسکے رشتے دار نوچ کھائیں گے، میں کبھی طلاق نہیں دوں گا۔۔ نازنین کو اپنے ساتھ رکھوں گا سر آنکھوں پہ بٹھا کر
"میں تمہیں طلاق کبھی نہیں دوں گا۔۔ سنا تم نے ہمارے خاندان میں طلاقیں نہیں ہوتی، نازنین بیگم۔۔"
"آپ کو اتنے مطلب پرست ہوگئے ہیں احتشام؟ کہاں گیا وہ شخص جو میری خوشیوں کا آگے رکھتا تھا؟ میں آگے بڑھنا چاہتی ہوں۔۔ اگر آپ نہیں دیں گے تو میں کورٹ جاؤں گی۔۔ اور۔۔"
"اور۔۔ تمہیں لگتا ہے ایسے طلاق مل جائے گی؟"
میں نے سرگوشی کی تھی۔ میں اسکی آنکھوں میں دیکھنا نہیں چاہتا تھا میں اگر اسکی آنکھوں میں دیکھ لیتا تو سچ بتاتا دیتا اور وہ سہہ نہ پاتی۔۔
"اور میں طلاق کی وجہ بھی بتا دوں گی۔۔ پھر تو ملے گی نہ؟"
"کھانا گرم کرکے لاؤ نازنین فالتو کی بحث چھوڑ دو۔۔"
میں کپڑے لیکر باتھ روم چلا گیا تھا میں جانتا تھا کہ وہ باتیں کررہی۔۔ کچھ دیر میں ٹھیک ہوجائے گی۔۔
پر میں غلط تھا جب کمر ے میں واپس آیا وہ اپنا سوٹ کیس لیکر جاچکی تھی
"احتشام بیٹا۔۔"
"امی میں ٹھیک ہوں۔۔ کھانا کمرے میں بھجوا دیں گی؟"
"ہم۔۔ ہاں میرے بچے۔۔"
ماتھے پر پیار دے کر امی چلی گئی تھی۔۔ اس وقت مجھے ہمدردی نہیں چاہیے تھی اس وقت مجھے ترس نہیں چاہیے تھا اس وقت مجھے وقت چاہیے تھا، یہ سوچنے کے لیے کہ بیگم کو واپس کیسے لاؤں۔۔"