Kaanch Ki Choori
کانچ کی چوڑی
"لڑکی ہوں تو کیا ہوا؟ آزادی میرا حق ہے مجھے بھی وہ ہوائیں چاہیے جن میں اڑ کر وہ ہر رنگ دیکھ سکوں جو میری پہنچ سے باہر ہے۔۔ "
دوپٹے کو سر پر لینے کے بجائے گلے میں اٹکا کر اس نے کالج کی کتابیں الٹے ہاتھ میں تھامی اور آخری بار اپنے خوبصورت وجود کو شیشے میں دیکھے کمرے سے باہر چلی گئی۔
"میں نے کتنی بار کہا ہے کالج جاتے وقت سر ڈھانپ کر جایا کرو۔۔ امی۔۔ امی۔۔ سمجھائیں اپنی بیٹی کو۔۔ میں آج اسے اپنی بائیک پر بٹھا کر نہیں لے جاؤں گا محلے کے لڑکے گھورتے ہیں شرم آتی ہے مجھے"۔
چھوٹے بھائی کی آواز نے والدہ کو کچن سے آنے پر مجبور کردیا۔۔ پھر وہی روز کی بحث مگر آج عینی کے ارادے باقی دنوں سے قدرے خراب تھے جس نے جھٹ سے بھائی کو جواب دے کر لاجواب کردیا "آج آپ کو چھوڑنے کی ضرورت نہیں آج میری دوست اپنی گاڑی میں آرہی ہے۔۔ میں اسی کے ساتھ جاؤں گی۔۔ "۔
ابو آپ سن رہے ہیں؟ اسکی خواہشیں اب حد سے تجاوز کررہی ہیں۔۔
بھائی نے دوسری طرف بچھی چارپائی پر لیٹے ہوئے معذور باپ کو مخاطب کیا جو فالج کے اٹیک کے بعد بولنے کی طاقت بھی کھو چکے تھے
"میں بات کرتی ہوں سنی بیٹا بار بار اپنے ابو کو کیوں پریشان کرتے ہو؟"
"کیونکہ یہ آپ دونوں کی دی گئی آزادی کا نتیجہ ہے۔ "
"آزادی؟ نہ میں گھر میں اپنی مرضی سے رہ سکتی ہوں نہ باہر مجھے پانچ منٹ کی چھٹی دیتے ہیں۔۔ صبح اٹھا کر بٹھا دیتے ہیں۔۔ کچن کے کام نہیں ختم ہوتے
دروازے پر مت جاؤ بالکونی پر مت جاؤ چھت پر مت جاؤ۔۔ کالج چھٹی سے دس منٹ پہلے آپ بائیک لیکر کھڑے ہوجاتے ہیں۔۔ کہاں ہے میری آزادی؟"
اپنی والدہ کا بازو جھٹک کر وہ بھائی کے بالکل سامنے ڈٹ کر کھڑی ہوئی، "ابھی آزادی نہیں دی تمہیں تو محفوظ ہو تم۔۔ جس دن آزادی مل گئی تو برباد ہوجاؤ گی، جس طرح کی تم آزادی مانگ رہی ہو عینی اس آزادی میں لڑکیاں برباد ہوتی ہیں آزاد نہیں۔۔ "
اور بھائی اپنی بائیک کی چابی اٹھا کر گھر سے چلا گیا تھا۔۔ اور کچھ دیر بعد ہمیشہ کی طرح ماں کو منا کر وہ بھی گھر سے باہر چلی گئی تھی کالج کے لیے۔۔
مگر بڑی سی گاڑی پر گلی کی نکڑ پر جو اسے لینے آیا وہ کوئی لڑکی نہیں تھا
"آج تو بڑی خوبصورت لگ رہی ہو۔۔ "
"زیادہ باتیں نہیں کرو جلدی نکلو یہاں سے بھائی کے دوست یا محلے والوں نے دیکھ لیا تو خیر نہیں۔۔ "
دروازہ بند کرکے اس نے جیسے ہی کہا ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے اس شخص نے اسے اور آزمانے کے لیے اس کا ہاتھ پکڑ لیا تھا
"جو محبت کرتے ہیں وہ ڈرتے نہیں ہیں عینی۔۔ اور تم نے وعدہ کیا تھا آج کا"
"ہاں مگر اتنی جلدی کیا ہے؟ پرسو ہی تو ڈیٹ پر گئے تھے نہ؟"
"آج میری سالگرہ ہے کیا میرے لیے کوئی سپیشل گفٹ نہیں؟ کیا کوئی محبت نہیں کرتی؟ یا بس میرے روپے پیسے سے محبت ہے؟"
"بس کرو نعمان اگر محبت نہ ہوتی تو اس طرح جھوٹ نہ بول کر آتی۔۔ "
"میں کیسے یقین کرلوں کی سچی محبت کرتی ہو؟"
"آزما کر دیکھ لو۔۔ "
"اور اگر آزمائش پر پورا نہ اتری تو؟"
"تو جان دے دوں گی۔۔ اور اگر تمہاری آزمائش پر پورا اتری تو؟"
"تو اسی وقت نکاح کرلیں گے ہم۔۔ "
*
اور اس دن اس نے اپنے محبوب کی آزمائش کو دل سے مان کر اپنی محبت کی آزمائش کو پورا کرکے ثبوت دہ دیا تھا۔۔ خمار کے ان لمحات کے بعد محبت کی آزمائش کی آگ بجھ جانے کے بعد جب آنکھیں کھلی تو کرایہ کے اس کمرے میں اس نے خود کو تنہا پایا۔۔
اور پائی وہ کانچ کی ٹوٹی ہوئی چوڑیاں۔۔