1.  Home
  2. Blog
  3. Sidra Shaikh
  4. Dehleez (2)

Dehleez (2)

دہلیز (2)

"بیگم پوری بات سن لیا کرو پہلے۔۔ تمہیں پتہ ہے میرا جو دوست اپنی فیملی کے ساتھ آیا تھا؟ ان لوگوں کو ہماری سونیا بہت پسند آئی ہے وہ لوگ اسی ہفتے رشتے کی بات کرنے آئیں گے۔۔ اور تم جانتی ہو انہوں نے اپنے کس بیٹے کے لیے ہاتھ مانگا ہے ہماری سونیا کا؟"

"داؤد؟"

"ہاں جی داؤد۔۔ ہماری سونیا کے نصیب اتنے اچھے ہوں گے میں نے سوچا بھی نہیں تھا۔ اتنی بڑی فیملی اور پڑھی لکھی فیملی میں سونیا کی شادی ہوگی۔۔ میں تو سوچ سوچ کر نہال ہو رہا ہوں۔ "

"یااللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے۔۔ میں سونیا کے لیے بہت پریشان رہتی تھی حیدر ہماری بیٹی کی تو قسمت کھل گئی۔۔ "

یہ جلاتی دھوپ میں سائبان بن کر اس پر تن جانے والے والدین کی خوشی کا مقام تھا اور وہ نادان دل کی مان بیٹھی تھی۔ وہ لڑکھڑا گئی اور پشیمانی کی دلدل اس کے ہر احساس کو اپنے اندر دھنسانے لگی۔ اس کا چہرہ آنسوؤں سے تر ہوگیا تھا۔ چادر میں چھپائے گئے موبائل کی وائبریشن نے اسے اس جذبات بھری دنیا سے باہر نکالا تھا۔ مگر اپنے بڑوں کی طرف سے متعين کردہ حدود اس کے دل کے ہر جذبے کو اپنی پناہوں کے احساس سے ڈھانپنے لگیں۔ اب اس کے دل کا جھکاٶ بھی دماغ کی طرف ہو چکا تھا، جس میں آج بھی وہی باتیں گھوم رہیں تھیں جو وہ اپنے گھر والوں اور اساتذہ کرام سے سنتی آئی تھی۔۔

"تمہارے ابو نے ہمیشہ تمھیں کھلی چھٹی دی تم تینوں کو کبھی کوئی پابندی نہیں لگائی۔۔ لیکن ایک بات یاد رکھنا۔ بیٹی جب پیدا ہوتی ہے تو اس کے ارد گرد ایک دائرہ بن جاتا ہے۔ جب تک وہ اس دائرے کی حد میں رہتی ماں باپ کی عزت برقرار رہتی ہے مگر جب وہ اس دائرے سے قدم باہر نکال لیتی ہے تو سات نسلوں کو بدنام کرجاتی ہے"

ماں کی آواز ابھی بھی اس کے کانوں میں گونج رہی تھی اتنے سال پرانی بات آج بھی اسے ذہن نشین تھی۔ موبائل کی سکرین پر ایک ہی نام فلیش ہورہا تھا جس نے اسے دہلیز پھلانگ کر آزاد فضا میں سانس لینے کی ترغیب دی تھی مگر اس کے قدم اسی دہلیز پر ہی رک گئے تھے۔ اسے فیصلہ کرنے میں کچھ دیر نہیں لگی تھی۔

وہ واپس اوپر والے پورشن میں آگئی تھی اور جس شگاف سے اس نے وہ کپڑوں کی گھٹری باہر پھینکی تھی، شیشہ ہٹا کر وہاں سے باہر ایک نظر دیکھا۔ اندھیرے میں بڑی گاڑی کا ہیولہ نظر آ رہا تھا۔ جس کے ساتھ ایک ہادی نہیں بلکہ کچھ اور لڑکے بھی ٹہل رہے تھے۔ ہادی کی خوفناک حقیقت اس پر آشکار ہوئی تو اس کا روم روم ٹھنڈا پسینہ اگلنے لگا۔ اس نے ایک جھٹکے سے کھڑکی بند کردی تھی۔۔

واپس کمرے میں آکر اس نے موبائل فون دیوار پر مار کر توڑ دیا اور ہچکیوں سے اس کا سینہ دہلنے لگا تھا۔۔ رات کی خاموشی میں اس کے اندر اترنے والے کرب نے اذان فجر کے ساتھ ہی اپنے وجود کو فنا کیا اور وہ باوضو خدا کے حضور آ کھڑی ہوئی۔ محبت اسم اعظم ہے۔ اللہ کا نام محبت ہے۔ اس خدا نے محبت کے وجود کو زندگی کے ہر دور میں زندہ رکھا ہے۔

جس محبت کی اسے تلاش تھی ابھی تک فطرت نے وہ اس کے نصیب میں لکھی ہی نہیں تھی۔ حصول کے لیے انتہائی قدم اٹھا کر وہ فطرت سے بغاوت کرنے چلی تھی۔ مگر اسے اس بغاوت سے اس محبت نے بچا لیا تھا جو دنیا میں آنکھ کھولنے سے پہلے ہی اس کے حصے میں لکھ دی گئی تھی۔ والدین کی محبت نے اسے خدا کی طرف سے وضع کردہ راستوں پر اتارا اور سونیا حیدر اس رات باوضو ہوکر اپنے رب کے حضور اتنا روئی تھی کہ اس کے اشکوں کے تلاطم میں کمرے کی اشیا کے دھندلے خاکے ڈوب ڈوب گئے۔

***

"ہادی۔۔ چل اب کیا ہوا باہر کیوں نہیں آرہی۔۔ "

"وہ واپس نہیں آئے گی۔۔ اس کی ہمت کیسے ہوئی فون بند کرنے کی اس کی تو میں۔۔ "

وہ اس کے گھر کی طرف بڑھا تھا جب اس کے دوستوں نے اسے واپس گاڑی میں بٹھا کر گاڑی سٹارٹ کردی تھی

"ہادی صبر کر ابھی تماشہ لگائے گا تو پولیس کیس بن جائے گا۔۔ اسے بھی دیکھ لیں گے۔۔ "

ہادی نے مارے غصے کے گاڑی کی سپیڈ تیز کردی تھی۔

"سونیا نے اچھا نہیں کیا۔۔ آج تو ہاتھ پکڑ کر اسے لے جارہا تھا مگر اب اس کے گھر والے دھکے دے کر نکالیں گے اسے۔ وائرل کردوں گا میں سب کچھ۔۔ تم لوگ دیکھ لینا۔۔ وہ منہ چھپاتی پھرے گی اسکی تو۔۔ ۔

ناکامی نے اسے جھنجھلا دیا تھا۔ جذبات میں ابال ہوا تو سٹیرنگ پر اس کے ہاتھ ڈگمگا گئے۔ اور سامنے سے آتے بائیس وہیلر ٹرالر نے اس کی گاڑی کو کچل دیا تھا۔ موت کا شور ابھرا اور پھر سراسیمہ خاموشی چھا گئی۔

***

"مسز داؤد کہاں کھو جاتی ہیں کھانا پسند نہیں آیا کیا؟"

داؤد نے کھانا کھلاتے ہوئے اپنا ہاتھ روک لیا تھا۔

"افف اللہ۔۔ داؤد کھانا بہت ہی ٹیسٹی ہے۔۔ پر آپ عادت بنا رہے ہیں کل کو آپ نے ہی تھک جانا ہے کھانا بناتے بناتے"

"ہاہاہا سو تو ہے پر اس میں برائی بھی نہیں کم سے کم تم تو بیڈ ریسٹ کرلیا کرو گی۔ "

داؤد نے قہقہ لگایا تھا اور روٹی کا ایک اور نوالہ بنانے لگا۔ سونیا کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ جن میں اپنی غلطیوں پر پشیمانی کے جھلملاتے عکس سے زیادہ اس فیصلے کی خوشی کا نشان تھا جو اس نے رات کے اندھیرے میں گھر کی دہلیز پار کرنے سے پہلے کیا تھا۔

"ماما۔۔ نانا ابو آئے ہیں۔۔ اور اتنے کھلونے لے کر آئے ہیں۔ ۔

ان کو بیٹی بھاگتے ہوئے بیڈروم میں آئی تھی

"میری جنت۔۔ "

سونیا نے اپنی بیٹی کو اپنی گود میں بٹھا لیا تھا اور پیار بھری نظروں سے اپنی مجازی خدا کو دیکھا تھا کہ شادی کے اتنے سالوں کے بعد بھی جس کی محبت میں کمی نہیں آئی تھی۔۔

کیا یہ سب ممکن تھا کسی حرام محبت میں؟ کیا ممکن تھا دہلیز کو پار کرنے پر یہ عزت بھری زندگی گزارنا؟

بیشک اللہ کے فیصلے بہترین ہوتے ہیں۔۔

(اگر ہماری نامحرم محبت کابھیانک انجام ہمیں نظر آجائے تو ہم کبھی کسی نامحرم سے بات کرنے سے پہلے سو بار سوچیں تعلقات استوار کرنا تو بہت دور کی بات ہے)

Check Also

Spanish Mazay Ki Zuban

By Mubashir Ali Zaidi