Rehnuma Ya Kaam Ki Machine
رہنما یا کام کی مشین
میرا ماننا ہے کہ اک انسان کو اک اچھا رہنما بننے پر توجہ کرنا چاہیے بجائے اس کے کہ وہ اک مینیجر اور کام کرنے والی مشین یا کام لینے والی مشین بنے۔ ہمیشہ دیکھتی کہ ہم لوگ اپنے ان پٹ سے زیادہ کام لینے اور لوگوں کو مینیوپولیٹ کرنے پر فوکس کرتے ہیں اور اس میں کامیاب بھی ہوجاتے ہیں۔
آپ کے انڈر کام کرنے والے کام بھی کر دیتے ہیں لیکن آپ سے خوش نہیں ہوتے جبکہ اک اچھا لیڈر فوکس کرتا ہے کہ اس کے ٹیم ممبرز ترقی کرہے ہیں؟ آیا کہ اپنے رہنما، ہدایت کار اور مینٹور سے خوش کہ نہیں ہیں اک لیڈر کی تمام تر توجہ ان کی ضروریات، ان کی نشونما، اور ان کی زات، اور سب سے بڑھ کر ان کی ترقی پر ہوتی ہے اکثر لوگ اچھے مینیجر ہوتے ہیں کام لینے اور کرنے میں ماہر ہوتے ہیں لیکن اپنی ٹیم کو کسی کھاتے میں نہیں لاتے۔
ہمارے corporate culture میں لیڈر کی اک غلط تصویر کھینچی گئی ہے ہمارے ہاں اکثر آنلائن کمپنیز میں انویسٹمنٹ کر زریعےکام شروع کرنے والے خود کو اک اعلٰی پائے کا لیڈر مانتے ہیں اور نیٹ ورک بلڈنگ کے بڑے بڑے اشتہاراتی اسٹیٹس اور پوسٹ رکھتے ہیں جب ان سے بات کی جائے تو وہ اندر سے خود غرض اور مفاد پرست ہوتے ہیں انہیں ٹیم بلڈنگ پر عشاریوں میں یا کچھ روپوں میں معاوضہ مل رہا ہوتا ہے اور اک بار کسی کو اپنے نیٹ ورک میں شامل کرکے وہ اس کے حالات سے بے خبر ہوجاتے ہیں۔
کوئی 10 میں 1 ہی آپ کو اصل لیڈر ملے گا اکثر تو یہ بھی نہیں جانتے کہ کس طرح اک خاتون سے پیش آنا ہے انہیں صرف اپنی ترقی سے مطلب ہوتا ہے جبکہ ٹیم بلڈنگ کرنے اور اک رہنما بننے کے بعد آپ کی ترقی اور چھوٹے سے چھوٹی راستے میں آنے والی مشکل سانجھی ہوجاتی ہے، اور یقین کریں اکثر لوگ انویٹمینٹ اس لیے ہی کرتے ہیں کہ ان کے نام کے آگے لیڈر اور لیڈرشپ کے اونر کا ٹیگ لگ جائے اور یہ ہی وجہ ہے کہ آج ہمارے نوجوان اصل لیڈر اور اس کی خصوصیات سے نہ آشنا ہیں، اکثر کمپنیز اپنے مینیجرز کو لیڈر کا خطاب دےدیتی ہیں اور امید لگاتی ہیں کہ وہ انکی کمپنی کو اٹھا کے رکھ دے گا اور یہ عمل ہمارے نئی نسل میں لیڈر کی غلط تعریف کو متعارف کرواتا ہے، جبکہ دیکھا جائے تو
Leasers are few in a part
لیڈرز میں کچھ نیچرل اسٹ انسٹنٹس(instints) ہوتی ہیں اور وہ اپنے ماحول اور رہن سہن سے بھی خود میں کچھ صفات کو پیدا کرتا ہے اور یہ نیچر کا اصول ہے۔ اور لیڈر اپنے اندر جن خصوصیات کو خود پیدا کرتا ہے ان میں احساس اور فکر لازمی اور سرِ فہرست ہیں۔
روز صبح جب نوجوان گھر سے نکلتے ہیں تو ان کے والدین کی یہ ہی خواہش ہوتی ہے کہ ان کا بچہ محفوظ رہے اور اس کے کھانے پینے اور طبیعت کا مکمل خیال رکھا جائے اور قائدانہ ماہر اور متعدد بہترین فروخت کنندگان کے مصنف بشمول "لیڈر ایٹ لاسٹ، " simon sinek کا یہ ہی کہنا ہے کہ اک اچھا لیڈر والدین کی طرح سوچتا ہے اپنی ٹیم میں اتحاد رکھتا ہے اور انہیں یکجہتی کا سبق دیتا ہے، "جسے وہ سرکل آف سیفٹی" کہتا ہے اور جہاں لیڈرز میں یہ کوائلٹی نہ پائی جائے تو وہاں وہی scene create ہوتے ہیں جیسے بولیوڈ کی فلم" کانٹ"اور ہمارے ہر 2 میں سے 1ادارے میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔
ہم یا تو پروفیشنل ہونا نہیں جانتے سیریئس ہی نہیں ہوتے کام کے ساتھ یا اگر ہوجائیں تو پھر نارمل نہیں رہتے سائمن سنیک لکھتا ہے کہ اک لیڈر کو اپنے انڈر کام کرنے والوں کے ساتھ پرسنل کونٹیکٹ بھی رکھنا چاہیے تا کہ وہ ان کی نجی زندگی اور اس میں چل رہے حالات سے بھی واقف رہ سکے اور یہ کیا ہی خوب بات ہے جو سائمن نے کہی ہے اور ہمارے معاشرے کا آج تک بڑی حد تک یہ علمیہ ہے کہ لیڈر اپنا ڈر اور خوف پھیلاتا ہے اور اپنے انڈر کام کرنے والوں کو جوتے کی نوک پر رکھ کر کام نکلوانے کا عادی ہے یہ مجبور کو اس کی مجبوری کے تحت مینیوپولیٹ کرنے والا عمل ہی ہمارے معاشرے کو نشونما پانے اور پھلنے پھولنے سے روکے ہوئے ہے۔
اک اچھا لیڈر کبھی اپنے عہدے کو لے کر انسیکیور (insecure) نہیں ہوتا وہ اپنے جیسے مزید لیڈرز پیدا کرتا ہے تاکہ معاشرہ ترقی کی طرف گامزن ہو اور نشونما پا سکے لیکن جہاں لیڈرز صرف نام کے ہوں تو نتیجہ منفی ہوگا۔ ٹیکنولوجی کے اس دور میں جہاں ہمارے کیچن کے چولہے سے لے کر ہمارے گھر کے دروازے تک سیکیورٹی کیمرہ ٹیکنولوجی کا منہ بولتا ثبوت ہے اور ہم روز بہ روز نئی سے نئی ٹیکنولوجی کو آتے دیکھ رہے ہیں۔ لیکن ہماری نہ اہلی دیکھیے کہ جہاں بات حمکرانوں کی آتی ہے ہم ایسوں کو منتخب کرتے ہیں جن کا ہم پر حکومت کرنا جدی پشتی کھیل بن گیا ہو۔
ہم اپنے ملک کا لیڈر بھی آزادانہ رائے سے بہتر فیصلہ نہیں کرکے لا سکتے اور جنہیں لاتے ہیں انہیں لیڈر بننا نہیں آتا بس اپنے بینک بھرنے آتے ہیں جو اقتدار میں آتے ہی آنکھیں متھے پر رکھ لیتے ہیں دھرنے اور تقریریں لمبی لمبی اور عمل کچھ نہیں کرکے دکھاتے ہماری سر زمیں جسے ہم اسلامی جمہوریہ کہلواتے ہیں اسلامی تو چھوڑیے جمہوریہ بھی نہیں بن پائی ہے کیوں کہ جس طرح کے حکمرانوں کو ہم ووٹ دے کر لاتے ہیں وہ پہلے سے ہی استحصال شدہ اور کرپشن کے ڈھیر ہوتے ہیں اور ہم انھیں ملک تھما بیٹھتے ہیں۔
ظلم ہمارا ہی ہم پر یہ کہ ہم انھیں اک بار نہیں بار بار خود پر مسلط کر لیتے کسی نئی نسل اور نئی سوچ کو پروموٹ کرنے کی بجائے ہم پرانے بوسیدہ اور پسماندہ سوچ کے لوگوں کو ہی سلامیاں دیتے اور ان کے ہاتھوں رُلتے نہیں تھکتے۔ ہم حکومتی کرسی کو زمہ دار مانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کرسی ہی خراب ہے جو بیٹھتا ہے وعدے بھول جاتا ہے یہ نہیں دیکھتے کہ بٹھایا کس کو تھا ہمارے ملک کی سیاست بے نسل لوگوں کا نسلی کھیل بن گیا ہے اور ہم چپ ہیں حکمران خود نہیں آتے انہیں لایا جاتا ہے آپ کے اور ہمارے ووٹ مل کر انہیں کرسیوں پر براجمان ہونے میں مدد دیتے ہیں۔
لیڈر کا کام صرف حکم چلانا یا حکمرانی کرنا نہیں ہوتا، لیڈر خلفۂ دوئم حضرتِ عمر کی طرح ہوتے ہیں جنہیں فکر ہوتی ہے کہ اگر میری حکومت میں دریائے فرات کے کنارے اک کتا بھی بھوکا مرگیا تو اک کا سوال مجھ سے ہوگا، درحقیقت لیڈر اک خود مختار اور احاس مند دل ہوتا ہے جس کی زندگی کا مقصد خود سے منسلک لوگوں کی زندگیوں میں استحکام لانا اور ماحول میں تحفظ اور سب سے ضروری یہ کہ تمام تر سہولیات مہیا کرکے دینا ہوتا ہے۔
لیڈر ہر وہ شخص ہے جس نے آپ کی زندگی میں کبھی کوئی اچھا راستہ دیکھایا ہو اچھی بات بتائی ہو لیڈر چھوٹا یا بڑا نہیں لیڈر خدا داد صلاحیتوں کے ساتھ اک مکمل پیکج فور گائڈینس ہوتا ہے۔ لیڈر احساس اور خدمت کی دولت سے مالامال ہوتا ہے۔ آپ کا لیڈر آپ کو ہر حال میں منفرد لگتا پے آپ کو inspire کرتا ہے۔ اک مینیجر کے پاس پاور شو کرنے کے لیے incentives اور سزا ہوتے ہیں اور اک لیڈر کے پاس اس کا کریزمہ ہوتا ہے لیڈر ہر حال میں لیڈر ہوتا ہے وہ وقت و حالات کے ساتھ نہیں بدلتا بلکہ وہ وقت و حالات کو بدلنے کی کوشش کرتا ہے، لیڈر کی موت بھی جشن کی طرح منائی جاتی ہے وہ اپنی زندگی میں اتنا کچھ کر چکا ہوتا ہے کہ اس کے جانے کے بعد بھی لوگ اس کے لگائے ہوئے باغ سے پھل کھاتے ہیں اس کی کہی گئی باتوں سے اپنی زندگیاں سنوارتے ہیں۔
لیڈر حضرت ﷺ جیسے ہوتے ہیں پیٹ پر بندھے پتھر نہیں دیکھتے صحابہ کے ساتھ خندق کھودتے ہیں صحابی آتے اور کہتے ہیں کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں خندق کھود لوں لیکن بھوک بڑی لگی ہے صحابی اپنی قمیض اوپر کرکے دکھاتے ہیں ایک پتھر باندھا ہوا تھا پیٹ پر مجبوری تھی اور پتھر اس لیے کہ بس محسوس ہو کہ پیٹ بھی ہے آپ حضرت محمد ﷺ نے فرمایا کہ میں نے دو باندھے ہوئے ہیں سوچیں کتنی بھوک ہوگی مگر یہاں لیڈر آنے والی نسلوں کے لیے اک مثال قائم کر رہا ہے کہ لیڈر بننا ہے اپنے حصّے کا کام دوسروں پر نہیں ڈالنا رعب سے کام نہیں نکلوانا بلکہ خود کو سب کے جیسا پیش کرنا ہے قدرت تمہیں خود ہی نمایاں کر دے گی۔
آج ہم پیسے کمانے کی مشین بنے ہوئے ہیں تعلیم برائے اصلاح ہوتی ہے اور ہم برائے نوکری حاصل کرتے ہیں ہمارا نوجوان بڑی پکچر کی تکمیل سے ڈرتا ہے اور چند روپوں کے لیے اپنی 16 سے 20 سال کی تعلیم میدان میں کی گئی محنت کو چند ہزار روپوں کے عوض بیچ کر اندر کے احساس مند شخص کو ہمیشہ کے لیے سلادیتا ہے ہم آج بھی صرف ایک ہی صفت کو اپنے اندر رکھنے کے قائل۔
ہیں ہم لفظ versatileکو پڑھ کر نظرانداز کرتےجارہے ہیں جس گھر میں کوئی رہنما نہ ہو اور جس قوم کے لوگوں میں اپنا بہتر رہنما چننے کی صلاحیت نہ ہو تو ان کا شیرازہ بکھرا ہی رہتا ہے، میرا مقصد کسی بھی شعبے یا عہدے کی نفی کرنا یا اس کو حقیر جاننا نہیں بس اس امر کی طرف توجہ دلانا ہے کہ ہر انسان کا حق ہے کہ وہ خود کو پہچانے جانے اور اپنے اندر موجود خداداد صلاحیتوں کا استعمال کرے اور خود کو معاشرے کے لیے مفید بنائے اور اپنے سے چھوٹوں کی زندگی میں اک بہترین رہنما کا کردار ادا کرے اور انہیں تحفظ فراہم کرے اپنے سے جڑے رشتوں اور لوگوں کے بارے میں آگاہ رہےاور خود میں بہتری لائے حالات کو خود پر حاوی کرنے کی بجائے ان پر سبقت رکھے۔
کوشش کریں کہ لیڈر بنیں آپ ساتھ کھڑے ہونے والوں کے ساتھ کھڑے ہوں اگر آپ آج اک چھوٹا سا کاروبار چلاتے ہیں کہیں ایسی جگہ کام کرتے ہیں جہاں کچھ لوگ آپ کے انڈر ہوتے ہیں تو ان کے لیڈر بنیں انہیں تحفظ دیں ان کی خوشی اور غم میں شریک ہوں آپ چھوٹے سے شروع کرکے اک بڑے بزنس مین، کسی پارٹی کے لیڈر، گھر کے سربراہ، یا کانونی کے چیئرمین ہی کیوں نہ بن جائیں لیکن کبھی اپنی قیمت خود نہ لگائیں اپنا اخلاق وسیع کریں نیلسن منڈیلہ بنیں جنہوں نے 27 سال جیل میں رہ کربھی بحالی پر اپنے مجرموں کو معاف کردیا، ہماری new generation کو نئے لیڈرز فراہم کریں خود کو اک لیڈر کے سانچے میں ڈھالیں۔ اپنے آج کو اس طرح صرف کریں کہ آپ کل کے لیڈر ہوں۔