Azad Riasat Aur Pakistani Qaum
آزاد ریاست اور پاکستانی قوم
ماہ اگست شروع ہوتے ہی ملک بھر میں جشن آزادی جوش و جذبے کے ساتھ منانے کی تیاریاں شروع ہو جاتی ہیں۔ گلی، محلے، بازار، سکول اور کالج رنگ برنگی جھنڈیوں اور سبزہلالی پرچموں سے سج جاتے ہیں جبکہ نوجوان، بچے، بوڑھے اور مرد خواتین بھی قومی پرچم، جھنڈیاں اور دیگر سامان خریدنے پہنچ جاتے ہیں کیونکہ وطن سے محبت کا جذبہ اور ولولہ میری پیاری قوم میں کوٹ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔
آج میری پیاری قوم 73 واں جشن آزادی منا رہی ہے شہر شہر، گلی گلی، کوچے کوچے، محلے، شاہرائیں، عمارتیں اور دیگر مقامات کو خوبصورتی سے سجایا جا رہا ہے۔ برصغیر کی تاریخ میں 20 ویں صدی کا وسط بہت ہی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس وسط میں دنیا کے نقشے پر بہت سی اہم تبدیلیاں رونما ہوئیں دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانوی سامراج کی طاقت کا سورج آہستہ آہستہ غروب ہونا شروع ہوا اس نے جاتے جاتےبہت سے خطوں کی وحدتوں کو پارہ پارہ کیا برطانوی سامراج کے زوال اور ہندوستان سے اس کے اخراج سے جہاں دنیا میں عالمی طور پر تبدیلیاں رونما ہوئیں وہاں 14 اگست 1947کو دنیا کے نقشے پر پاکستان کا ایک آزاد مملکت کی حیثیت سے وجود میں آنا ایک نعمت سے کم نہیں تھا۔
قیام پاکستان کے 11 ماہ بعد 9 جولائی 1948 کو حکومت پاکستان نے یادگاری ٹکٹ جاری کیا جس پر پاکستان کا یوم آزادی 15 اگست کو قرار دیا گیا لیکن بعد میں 14 اگست کو ہی یوم آزادی کا دن ٹھہریا گیا پاکستانی قوم جشن آزادی 14 اگست 1947 کو منائے یا 15 اگست کو لیکن یہ سب سوچنے کے بعد ہمیں اس طرف بھی دھیان دینا چاہیے کہ 73 سال گزرنے کے باوجود ہم آزادی کے ثمرات سے فیض یاب کیوں نہ ہو سکے۔
انگریزوں اور گاؤماتا کے پجاریوں کے درمیان میں پھنسے ہوئے برصغیر کے مسلمان نے نے اپنی طویل کوشش اور انتھک محنت اور بے شمار قربانیوں کے بعد اپنے لیے الگ وطن تو حاصل کر لیا جس کو دنیا "پاکستان" کے نام سے جانتی اور پکارتی ہے یہ ایک ایسی پاکیزہ اور آزاد سرزمین تھی جہاں مسلمان بغیر کسی خود اور دباؤ کے اسلام کے مطابق آزادانہ زندگی گزار سکیں کیونکہ پاکستان "لا الہ الااللہ" کی بنیاد پر وجود میں آیا۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے مختلف اداروں میں اپنے خطابوں میں قوم کو اس بات سے باآور کرایا کہ "ہم نے پاکستان کا مطالبہ محض زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا تھا بلکہ ہم ایک ایسی اسلامی ریاست چاہتے تھے جہاں ہم قرآن اور سنت رسولﷺ کے مطابق زندگی بسر کر سکیں۔
لاتعداد قربانیوں اور بے انتہا مظالم سہنے والے بانیان پاکستان کی روحیں آج جب 73 سال گزرنے کے بعد پاکستان کو دیکھتی ہوں گی انہیں اس دھرتی کی قوم پر افسوس ضرور ہوتا ہوگا۔ قائداعظم نے کہا تھا مجھ سے اکثر ایک ہی سوال کیا جاتا تھا کہ پاکستان کا طرز حکومت کیا ہوگا؟ تو آپ نے فرمایا کہ میں ان کو جواب دیتا میں کون ہوتا ہوں مسلمانوں کا طرز حکموت تو 1400 سال قبل قرآن کریم نے واضح کر دیا تھا۔
ہمیں انگریزوں اور ہندؤں سے آزاد ہوئے تقریباً 73 سال گزر چکے ہیں لیکن آج بھی ہماری سوچ پر انگریز کی مہر لگی ہوئی ہے یہی وجہ ہے کہ ہماری قوم کا ہر آدمی اپنے مستقبل کےلیے افسردہ ہے۔ تقریباً تین چوتھائی صدی گزرنے کے بعد بھی ہم میں سے کوئی ایسا نہیں دلی طور پر حقیقت کو تسلیم کرسکے کہ بحثیت قوم ہم اور ہمارے ادارے آزاد ہیں ہم تو اتنے آزاد ہیں کہ ہماری عدالتیں آج بھی برٹش ایکٹ 1935 پر انحصار کرتی ہیں ہماری معاشی پالیسیاں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی بیساکھیوں پر استوار ہیں دوسری طرف ہمارا تعلیمی نظام یو ایس ایڈ اور یو این چارٹر کے سہارے کھڑا ہوا ہے جو ہمیں دن بدن نظریہ پاکستان سے دور کرتا چلا جا رہا ہے تو پھر إسی صورت حال ہمیں کیسے روشن مستقبل کی طرف لے جاسکتےہی اور ہماری سوچ کہاں تبدیل ہو سکتی ہے کہ ہم آزاد ہیں۔
دوسری طرف اس انگریزی تعلیمی نظام نے ہمیں اسلامی روایات اور تہذیب و ثقافت سے اتنا دور کر دیا ہے کہ ہم اسلام کو بھول کر مغربیت سے مرعوب دکھائی دیتے ہیں ہمارے سکول میں پڑھنے والے بچوں کی تربیت کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ وہ اہم تقریبات میں مکمل قومی ترانہ نہیں پڑھ سکتے لیکن انہیں شیلے، مسٹر چپس، ربن ہیڈ اور ٹارزن جیسی فرضی کرداروں پر مبنی داستانیں رٹی ہوئی ہیں۔
73 سال گزرنے کے باوجود زرہ خود کو مصنف بنا کر سوچیے! کیا ہم واقعی آزاد ہیں کیا ہم آزاد مملکت کی فضاؤں میں سانسیں لیتے ہیں کیا ہمیں اپنے مذہبی اور معاشرتی عقائد پر عمل کرنے کےلیے مکمل آزادی حاصل ہے کیا ہماری معشیت غلامی کے چنگل سے آزاد ہے کیا ہمارے سکول، کالج اور مدرسے آزاد ہو کر اسلامی نظام کے اندر کام کر رہے ہیں کیا ہماری مساجد اور مزارت آزاد ہیں ان تمام سوالوں کے اگر جواب تلاش کریں تو ایک ہی جواب گونجتا ہے
ہم آزاد نہیں ہیں۔ ہم آزاد نہیں ہیں۔ ہم آزاد نہیں ہیں