Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Showkat Budnumbal Kashmiri
  4. 2020 Ke Mukhtalif Roop (2)

2020 Ke Mukhtalif Roop (2)

2020 کے مختلف روپ (2)

جہاں ایک طرف کروڑوں اور لاکھوں میں تیار کئے ہوئے ویکسین اور ادویات سے ایک جان بچائی جاتی تھی لیکن وہی گولیوں اور بمبوں سے آسانی سے کئی جانیں تلف کرنے میں کثر باقی نہیں چھوڑی جاتی تھی۔ ایسے میں کبھی کبھی انسان کے سب سے بہتر اور طرقی یافتہ مخلوق ہونے میں شک معلوم ہوتا تھا۔

سال 2020 کو اگر ہم تعلیمی اعتبار سے دیکھیں گے تو معلوم ہوتا ہے کہ سال 2020 میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والا دنیا کا تعلیمی نظام ہے۔ انسانی جانوں کے زیاں کے بعد سب سے بڑا نقصان تعلیمی نظام درہم برہم ہونا ہی ہے۔ دورِ حاضر میں پرانہ اور ناقس تعلیمی نظام لیے کئی علاقوں میں بالکل تعلیمی اعتبار سے تاریکی دیکھنے کو ملی۔ اسکولوں میں بچوں کو اچھے سے پڑھے بغیر اگے طرقی دے کر ہماری بڑی نادانی معلوم ہوتی ہے۔ کیوں کہ جو قیمتی لمہے ہمارے ہاتھوں سے نکل گئے اُن کی بھرپائی شاید ہی ممکن ہے۔ اور اپنے بچوں اگلے جماعتوں میں ہونے کو اصل طرقی سے تعبیر کرنا ہرگز صیح نہ ہوگا بلکہ صرف خود کو دلاسے اور فریب دینے کے مترادف۔ جہاں چند کاوشوں سے تعلیم کا نظام جاری رہا لیکن جو نقصانات حالات کی وجہ سے تعلیمی اعتبار سے بچوں کو ملے ان کی بھرپائی کرنا وقت سے ہی ممکن ہے۔ غرض ضرورت اس بات کی ہے جب تک آنے والے وقت میں تعلیمی نقصان کا بھرپائی نہ کیا جائے اور جو خلیج پیدا ہوا ہے بچوں کے تعلیم میں اُسے پورا نہ کیا جائے اس سفر کو مکمل کہنا غلط ہوگا اور دوسری سیڑھی پہ قدم رکھنا محض دھوکا ہوگا۔

لیکن جہان سال 2020 تعلیمی نظام کیلئے نقصان دہ ثابت ہوا وہی یہ سال بیداری کے سال سے کم نہ تھا۔ اس نے ہماری تعلیمی نظام کو ہوسٹ مارٹم کرکے رکھ دیا اور ہمیں اس کی خامیوں سے روشناس کرایا۔ سال 2020 نے ہمیں جدت پسندی اور زمانے کے اعتبار سے جستجو کرنے اور سمجھنے پہ مجبور کیا۔ اس نے ہماری سائینس دانوں، محققوں اور استادوں کو ان کے حصول کی پہچان کرائی جہاں دنیا یہ سمجھ بیٹھی تھی کہ ہم نے تعلیم و تحقیق کا ہر باب رقم کیا ہے وہی ہمیں یہ معلوم ہوا کہ تعلیم اور تحقیق مکمل نہیں ہوسکتی ہے اور ہمیں وقت کے ہر کروٹ پہ سیکھنے اور عملانے کی ضرورت ہے۔

اگر سال 2020 کو ہم انسانی مزہبی اور اخلاقی آئینے میں دیکھنے کی کوشش کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ سال 2020 سبق اور آزمائیشوں کا سال تھا۔ بنی نوع انسان بالکل انسانی مزہبی اور اخلاقی تعلیمات اور اقدار سے غافل ہوچکا تھا۔ خوفِ خُدا سے دور یہ انسان ہر سوں سرکشی میں رقس کرتے دکھتا تھا۔ بےحیائی اور بے راہ روی آسماں چھوگئی تھی۔ انسانی ہمدردی اور عباداتِ الہٰی سے انسان دستبردار ہوچکا تھا۔ دنیا پہ ایسے انسانیت سوز واقعات سننے اور دیکھنے کو ملے کہ روحیں کانپ اٹھی۔ جہاں بڑے بڑے جرم ہوتے دیکھے وہاں عصمت دری اور مزہبی منافرت بھاری رہے۔ جہاں پردے کی اہمیت تو فراموش کی گئی تھی اور انسانی دل ازاری معمولی سی بات ہوگئی تھی۔ لیکن سال 2020 نے وہیں انسانوں کے ہوش ٹھکانے لائے۔ جہاں اپنی زباں کو دوسروں پہ تند کھوئی کیلئے چلانا انسان اچھا سمجھنے لگا تھا۔ اللہ پاک نے اسے اب بدن ہی نہیں بلکہ چہرہ تک کو ڈھانپنے پہ مجبور کیا۔ جسے شاید باشعور اور دانش مند لوگ ہی سمجھ سکتے ہیں۔ سال 2020 میں لوگوں کو ایسے حالات دیکھنے پڑے کہ جو کل تک شہنشائی کے گماں میں تھے انہیں اب گدائی کی صورت دیکھنی پڑی اور شاید اس کا غرور خاک میں مل گیا۔ کئی سارے لوگ سفر میں اور گھروں میں بھی دو وقت کی روٹی کیلئے عاجز ہوکر رہ گئے۔ لیکن ایسے میں یہ سال صاحب ثروت کیلئے ازمائیش آن کھڑی ہوئی کہ آیا وہ ضرورت مندوں، غریبوں اور محتاجوں تک پہنچ پائے یا نہیں۔ اس طرح ان کی انسانی پیکر ہونے کی جانچ اور پرکھ واقع ہوئی۔ کئی سارے خوش قسمت آزمائیش کی اس گھڑی میں انسانیت کے واقعی ہمدرد اور علمبردار ثابت ہوئے اور کئی بدبخت انسانیت سے غافل ہوکر اپنے ذاتی من مانی اور اغراض میں ڈھوبے رہے۔ اسی طرح یہ بھی دیکھنے کو ملا کہ جو لوگ عباداتِ الہٰی سے غافل ہوچکے تھے یا یوں کہے کہ سرکش ہوچکے تھے اب فراعوں کی آخری لمہوں میں توبے کی علامت پیش کرتے تھے لیکن انہیں اللہ کے مبارک گھروں کے دروازے بند ہی دیکھنے کو ملے۔ ایسے میں کل تک کے مغرور انسان عاجز ہوکر رہ گئے لیکن ہائے آگ لگنے پہ کنوا کھودنا۔ لیکن اللہ کی ذات رحیم ہے اور کریم ہے کہ جسے نادان سمجھ نہیں پاتے۔ خوش قسمت لوگ جن کے دل میں اللہ کے ہدایت کی رمق ہوتی ہے ہر وقت میں غفلت سے بچتے ہیں اور گناہوں اور لگزشوں کے فوراً بعد توبہ اور رجوع الہٰی کرتے ہیں اور نجات پالیتے ہیں۔ اللہ کے پیاروں کیلئے سال 2020 چونکہ آزمائیش کا سال تو تھا ہی لیکن ان کیلئے قربِ الہٰی کے سال سے بھی کم نہیں۔ انہوں نے اس نازک وقت میں بھی اللہ کی ذکر سے اور توبے میں آکر ایمان میں اظافہ پالیا۔ مومن کی یہ صفت رہی ہے کہ وہ دُکھی اور رنجیدہ ہوجاتا ہے لیکن مایوس ہر گز نہیں۔ کئی سارے اللہ کے پیارے بندے سال 2020 میں طاعون کے مرض سے شہادت پا گئے۔

ابوہرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے

رسول اللہﷺنے اِرشاد فرمایا:

وَمَنْ مَاتَ فی الطَّاعُونِ فَہُوَ شَہِیدٌ

ترجمہ: جو طاعون (کی بیماری)سے مر گیا وہ شہید ہے

سال 2020 میں ہمیں ایسے بھی لمہے دیکھنے پڑے کہ کئی ایسے بھی لوگ جو دینِ اسلام سے چونکہ دور تھے اسلام کی تعلیمات اور عظمت کا اعتراف کرگئے لیکن کچھ اسلام دشمن، بدبخت اور لعین ایسے دیکھنے کو ملے کہ جنہوں نے پوری امتِ مسلمہ کو مجروح کردیا۔ لیکن مُسلم دنیا کیلئے یہ بڑی آزمائیش تھی کہ آیا مسلماں باطل کی مخالفت اور مزمت میں پیش پیش رہیں گے یا دنیاوی لزتوں میں مست رہتے ہوئے خاموش بن بیٹھیں گے۔ اُمت مُسلمہ کیلئے اسے بڑی دُکھ اور آزمائیش کی گھڑی اور کیا ہوسکتی ہے کہ ان کے محو و مرکز اور جانوں سے بھی پیارے دوجہاں کے سردار اور اللہ کے نبیﷺ کی شان میں کوئی ناشاہستہ نا معقول اور گستاخانہ بات کہے۔ اور پھر مسلمانوں کیلئے تو یہ بات ہرگز ناقابلِ برداشت تھی۔ لیکن اللہ کے خالص بندوں نے اس کا بھرپور مقابلہ کیا۔

لیکن کچھ بے غیرت ایسے بھی ٹھہرے کہ اس نازک وقت میں بھی غافل رہے اور دنیاوی بالادستی اور مالی اغراض کو مزہب اور آخرت پر ترجیح دیتے رہے۔ جہاں ایک جانب مسلمان ظالم کے ہاتھوں کُچلے جارہے تھے وہی یہ لوگ ان ظالموں کے ساتھ ہاتھ ملانے سے باز نہ آئے بلکہ طاغوت کی غلامی اختیار کیے۔ یہاں یہ بات واضح کرنا ضروری ہے کہ غیرت مند قومیں ہمیشہ غیرت کو ہاتھوں سے جانے نہیں دیتے۔ انہوں نے اس بات کا مزاہرہ ٹاکار کیا اور باطل کی برپور مخالفت کی۔ لیکن کہیں لوگ فانی دنیا کی چند پل کی بالادستی کیلئے مضلوموں کی پروا کیے بغیر ان کے جزبات پہ شب خون مارتے رہے اور ظالموں سے ناتے بناتے رہے۔ غرض سال 2020 کئی لوگوں کیلئے سرخ روحی اور کئی لوگوں کیلئے روح سیاہی کا سامان معلوم ہوا۔

سال 2020 کو ہم سماجی بحالی کا سال بھی کہہ سکتے ہیں کیوں کہ جہاں ایک انسان اتنا ظالم بن چکا تھا کہ نزدیک تک کے رشتوں کو فراموش کرکے بے مروت اور بے لہاظ بن چکا تھا۔ اسے اپنوں اور پیاروں سے ملنے کی فرصت میسر نہ تھی۔ دنیا طلبی اور دولت کی لت میں گرفتار یہ انسان اگرچہ مجبور تھا لیکن اتنا بے مروت بن چکا تھا کہ اپنے بچوں تک سے اچھے سے بات کرنے کا وقت اسے میسر نہ تھا۔ صبح کو کام اور ڈیوٹی نکل کر یا وہی پہ قیام فرمائے اس انسان کو گھر پہ انے کا موقع ملتا تھا تو گھر آکر بھی یہ اپنے کاروباری اور دفتری کاموں میں الجھتا رہتا تھا۔ ایسے میں شاید ہی کبھی اسے بچوں کے جزبات اور احساسات سننے اور سمجھنے کا موقع ملتا تھا۔ اور پھر باقی رشتہ داروں کی بات تو دور کی بات تھی۔ لیکن وقت نے ایسی کروٹ دکھائی اس کی گلوبل دنیا اس کے کمرے تک محدود ہوکر رہ گئی اور اسے ساری کائینات صرف اپنے کنبے اور اپنے کمرے میں دکھائی دینے لگی۔ اس نے اپنے اہل و عیال کے معاملات سننے اور سمجھنے شروع کیے۔ بچوں کو اپنے والدین کا پیار اور ساتھ تھوڑا نصیب ہونے لگا اور بوڑھے ماں باپ کو اپنے جواں لخت جگر کے دیدار ہونے لگے۔ گھر میں بیٹھ کر مشینی دنیا کی نت نئی پریشانیوں سے تھوڑی راہت محسوس ہونے لگی۔ اب وقت کی دستیابی نے اسے اپنی تارخ اور تمدن کو پڑھنے کا موقع فرہم کیا۔ سال 2020 ہم نے دیکھا کہ کئی لوگ قلمکار، شاعر اور فنکار کچھ زیادہ ہی بن کے ابھر آئے۔ غرض حالات نے انسان کو اپنے تمدن اور ثقافت کے بارے میں پڑھنے اور سوچنے پر اُکسایا۔ ورنہ یہ انسان اتنا مسروف بن چکا تھا کہ اسے صرف ایک ہی کام کرنا زندگی کا مقصد معلوم ہوتا تھا اور اس کی آنکھوں میں صرف ایک ہی تصویر منجمند ہوگئی تھی۔ لیکن حالات نے اب اس کے دل میں انسان اور انسانی محبت کی پیاس جگادی۔ اپنوں سے دور رشتوں کی فکر نہ کرنے والا یہ انسان اب رشتہ داروں سے ملنے کی آرزو کرنے لگا۔ اسے اپنے کیے ہوئے اچھے برے سبھی تصویریں سامنے آنے لگے اور رشتوں کو استوار کرنے کے متعلق سوچنے لگا۔ لیکن بد ضمیر لوگ اس نازک دور میں بھی اپنی بد ضمیری اور عداوت سے باز نہ آئے اور سماجی ماحول کو متاثر کرتے رہے۔

اگر سال 2020 کو سیاسی اور حکمرانی کے آئینے میں دیکھا جائے تو یہ کسی حد تک انقلابی سال اور کئی ضمیر فروشی کا سال اور کئی ماضی کی طرح پھر وہی ظلم و تشدد کا سال معلوم ہوتا ہے۔

سال 2020 میں ہمیں ماضی کی طرح ظلم وتشدد کا تسلسل دیکھنے کو ملا۔ مضلوم وہی آہ فغاں کرتے رہے اور قاتل مقتل میں محوہ رقص رہے۔ کئی بے باک حق پرست اور امن کے داعی ہمیشہ کیلئے خاموش کردیے گئے۔ معصوم بچے اپنے پیاروں کے لاشوں پر پکارتے دیکھنے کو ملے۔ جہاں لوگ عالمی وباہ سے بچنے کی کشمکش میں تھے وہی دوسری جانب بمبوں اور گولیوں سے ہارتے ہوئے دیکھنے کو ملے۔ جہاں ایک جانب حقائق کو اجاگر کرنے والے نام وقتی اعزازات سے نوازے گئے تو دوسری جانب انہیں کے کئی ساتھیوں کو زندان کے دن دیکھنے پڑے۔ غرض پھر وہی ظلم و ستم اور تشدد کے نظارے آنکھوں سے دیکھنے کو ملے۔

کہیں پہ با شعور لوگوں نے اپنی وسعتِ نظر سے ذات پات رنگ و نسل اور مزہبی منافرت کو ہرا کر سیاسی کامیابی رقم کی جو شاید آساں نہیں تھی اور جن کے خیالات پوری سیاسی دنیا پہ چھاگئے۔ وہیں کئی پہ حکمرانوں کے ساحری میں گرفتار ضمیر فروشی کے مناظر بھی دیکھنے کو ملے جہاں نادان انسان اپنے زخم بھول کر سیاسی فریبوں کو مداوا سمجھ بیٹھے اور اپنی پَل بھر کی سیاسی مفادات کے عوض عظیم مقاصد کو فراموش کردیے اور فطرت غلامی کے آثار پیش کیے جو شاید کسی حد تک ان کیلئے مجبوری بھی تھی لیکن زندہ اور باشعور قومیں وقتی مجبوریوں سے عاجز نہیں ہوا کرتی ہیں بلکہ ہر وقت ضمیر کی ترجمانی کرتے ہوئے اپنے بلند مقاصد کیلئے رواں دواں رہتی ہیں۔ لیکن روشن خیال لوگوں نے ایسے میں اگر انقلاب تو بھرپا نہیں کیا لیکن انقلابی سوچ کو اُجاگر کرنے کی کوشش کی۔ غرض سال 2020 ضمیروں اور سرشتوں کو پرکھنے کا سال معلوم ہوتا ہے۔

سال 2020 سال اکالوجی بھی کہلا سکتا ہے اور اگر ہم اسے کرہ عرض کیلئے سالِ مرمت کہیں گے تو غلط نہ ہوگا۔ جہاں ظالم انسان نے اپنے ذاتی اور حقیر اغراض کیلئے فطرت کے اس نظام کو بکھرا کر چھوڑا تھا وہی سال کزشتہ نے فطرت کے نظام کو انسانی شر سے بچنے کا سامنان مہیا کیا۔ چونکہ ایک ناگہانی وباہ نے انسانوں کو چار دیواری کے اندر ہی محدود اور بے بس کردیا۔ اس سال روئے زمیں پہ مختلف خوش آئندہ تبدیلیاں بھی دیکھنے کو ملی۔ جہاں آج تک اس زمیں پہ سبزے کی چادر نہیں ملتی تھی اس سال وہاں پہ بھی سبزہ لہلانے لگا۔ ایک تحقیق کے مطابق زمیں کی تھرتھراہٹ میں بہت کمی واقع ہوئی۔ جیسے کہ پوری دنیا کا ٹریفک نظام ٹھپ ہوکر رہ گیا اور فکٹریاں بھی بہت حد تک سنسان پڑی۔ ایسے میں گاڑیوں اور کارخانوں سے نکلنے والے زہریلی گیسوں سے ماحولیات کو تھوڑی نجات ملی۔ فضا میں گرد و غبار کم دیکھنے کو ملا اور ماحول نے شور وگل سے تھوڑی رہائی پا لی۔ انسان مختلف قدرتی مقام کا رخ نہ کرسکا جس کی وجہ سے سرسبز باغات اور پارکوں کو پولیتھین اور پلاسٹک بوتلیں دیکھنے کو نہ ملی۔ جس طرح کچھ وقت کے بعد زخم بھر جاتے ہیں ٹھیک ایسے ہی کہیں مقامات سبزے سے بھر گئے۔ لیکن کئی پہ ظالم انسان کے شر سے ماحولیات کو پھر بھی رہائی نہیں مل سکی۔ اس نازک وقت میں بھی یہ ظالم جنگلات کا سفایا کرتا رہا۔ سال 2020 میں جہاں لوگ اپنے گھروں تک ہی محدود ہوکر رہ گئے انہیں مشینوں سے تھوڑی دوری میسر ہوئی۔ لوگوں میں ایسے میں زراعت اور کھیتی باڑی کی طرف رحجان دیکھنے کو ملا۔ اس طرح ماحولیات کے اعتبار سے سال 2020 کرہ ارض کیلئے سال مرمت معلوم ہوا۔

لہزا جب ہم مجموعی جائزہ لیتے ہیں سال 2020 کا تو یہ سال جہاں بہت غمناک اور آزمایشوں والا سال معلوم ہوا وہی یہ سال عالمِ انسانیت کیلئے تفکر، محاسبہ اور بیداری کا سال اور کرہ ارض کیلئے سالِ مرمت معلوم ہوا۔

Check Also

Baray Maidan Ka Khilari

By Muhammad Saqib