Pichli Sadi Ka Bachpan (3)
پچھلی صدی کا بچپن(3)
اسکول سے واپسی اور گاؤں کی شام۔
معلوم نہیں یہ روایت کب قائم ہوئی مگر جیسے ہی چھٹی ہوتی ہے سب بچے کندھوں پر بستے ڈالے بھاگ کر سکول سے نکلتے ہیں۔ کئی سال بعد عام ہونے والے ڈرون کیمرے اگر آج موجود ہوتے اور ذرا بلندی سے اس کی منظر کشی کرتے تو ایسا محسوس ہوتا کہ پہاڑی پر واقع ایک سکول کے مختلف مقامات سے گہرے نیلے اور سفید رنگ کے چشمے پھوٹ پڑے ہیں جو چھوٹی سی ایک گھنڈی (گھاٹی) عبور کرنے کے بعد سست ہو کر تھم جاتے ہیں۔
واپسی پر بھی محلے کے ہم جماعت ساتھ ہیں لیکن اس بار کسی کے انتظار کا اہتمام نہیں کیا جاتا کیونکہ سب کو گھر پہنچنے کی جلدی ہے۔ یہ گاؤں والوں کے آرام کا وقت ہے لہٰذا گلیوں میں سکول سے واپس جاتے طلباء کے علاوہ کوئی نظر نہیں آ رہا، دکانیں بھی اکثر بند پڑی ہیں ماسوائے ان کے جہاں سے طلباء کھانے پینے کی چیزیں یا اسٹیشنری خریدتے ہیں۔
تختی لکھنے کیلئے دانے دار سیاہی ایک روپے کی چار پڑیاں آتی ہیں، کچی پنسل، لکڑی کا فٹا (پیمانہ)، سلیٹی، شارپنر اور گوند سب ایک ایک روپے میں مل جاتے ہیں، مارکر اور پین میں بھرنے کیلئے "نیلی سیاہی" (روشنائی) تین میں جبکہ کاپی، سلیٹ، تختی اور پین سب کی قیمت دس دس روپے ہیں، پکی پنسل (بال پوائنٹ) بھی تین روپے کی ہے مگر بڑے کہتے ہیں کہ اس سے لکھائی خراب ہو جاتی ہے، ان کی اپنی لکھائی اس سے کیوں خراب نہیں ہوتی یہ وہ نہیں بتاتے۔
میں نے جو ایک روپیہ بچا کے رکھا تھا اس کے خرچ کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ اکثر بچوں کی طرح میں بھی قلفی خریدتا ہوں تاہم کچھ ایسے بھی ہیں جنہیں سموسہ پسند ہے، قلفی کچھ دیر تو "چوپی" جاتی ہے اس کے بعد چھوٹی چھوٹی چکیوں سے اسے کھایا جاتا ہے اور ایسے کھاتے ہوئے جو مزہ آتا ہے اسے صرف محسوس کیا جا سکتا ہے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔
واپسی کیلئے بھی ہم وہی رستہ استعمال کرتے ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ گھر کے قریب صبح جو اترائی آئی تھی اب وہ ایک لمبی اور قدرے تھکا دینے والی چڑھائی بن چکی ہے۔ گھر داخل ہوتا ہوں والدہ محترمہ چارپائی سے اٹھ جاتی ہیں وہ کہتی ہیں کہ دروازے کی آہٹ سے ان کی آنکھ کھل گئی ہے لیکن مجھے پتا ہے ماؤں کو بچوں کے انتظار میں نیند کہاں آتی ہے؟ جتنی دیر میں کپڑے بدلتا ہوں کھانا آ جاتا ہے۔
سالن کے علاوہ موسم کی مناسبت سے اچار، لسی، پیاز وغیرہ بھی ساتھ ہوتا ہے۔ دیہات میں ابھی ان کے بغیر "لنچ" مکمل تصور نہیں ہوتا، میں اب کچھ دیر آرام کیلئے لیٹ گیا ہوں۔ عصر سے تقریباََ ایک گھنٹہ پہلے سب اٹھ جاتے ہیں یہ چائے کا وقت ہے جس کے ساتھ رس (پاپے) یا دوپہر کی بچی روٹی کھائی جاتی ہے، میں کبھی لاہور نہیں گیا لہٰذا معلوم نہیں اس بات میں کتنی حقیقت ہے کہ جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ پیدا ہی نہیں ہوا۔
مگر ایک بات میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں اگر آپ نے میرے گاؤں کی شام نہیں دیکھی تو زندگی ابھی آپ کی بھی ادھوری ہی ہے، دوپہر کی خاموشی کے بعد گاؤں کے گلیوں میں زندگی موسم بہار کی مانند پھر سے لوٹ آئی ہے۔ خواتین نے شام کا کھانا بنانے کیلئے تیاری پکڑ لی ہے، بزرگوں نے کسی جگہ چوپال سجا لی ہے، کچھ نوجوان ٹیوب ویل پر نہا رہے ہیں، کچھ اپنے مویشی چرانے انہیں ہانکتے ہوئے لے جا رہے ہیں جن کے گلوں میں بندھی گھنٹیاں اپنے ساز بجا رہی ہیں۔
بچوں کیلئے یہ کھیل کود کا وقت ہے، درختوں کے ساتھ بندھی پینگیں جھولنے کیلئے بچے اکھٹے ہو چکے ہیں اور اپنا اپنا نمبر لگوا رہے ہیں، تھوڑی بڑی عمر کی باجیاں سٹاپو کھیلنے میں مگن ہیں، کسی کے ہاتھ کوئی ٹائر لگا ہے تو وہ اسے دوڑائے چلا جا رہا ہے، کوئی پٹھو گرم میں نشانہ تاک رہا ہے، کسی نے کوکڑے کھیلتے ہوئے کوئلے سے اپنے ہاتھ، کپڑے اور دیوار سیاہ کر دئیے ہیں، ندی کے کنارے کچھ بچے گلی ڈنڈا کھیل رہے ہیں، محلے میں جو حویلی خالی پڑی ہے وہاں بنٹے (کنچے) کھیلنے والوں نے قبضہ جما لیا ہے۔
کہیں مٹی سے بنائے گئے مویشیوں کی منڈی لگی ہے اور کسی محلے کے بچے چور سپاہی کھیلنے میں مصروف ہیں۔ کھلتی مسکراہٹوں، شوخ و شرارتی بچپن کی اچھل کود، بہتی ندی کے سکوت اور اس کے کنارے اگی گھاس، یہ شام کی پرسکون ہوا اور اس پہ جھومتے درخت، ڈھلتا سورج اور اس کی کرنوں سے رنگ پکڑتی لہلاتی فصلیں، اگر کوئی مصور اس کی تصویر بناتا تو ایک شاہکار وجود میں آتا اور اگر کوئی نسبتاََ کسی بلند جگہ کھڑے ہو کر اس سارے ماحول پر ایک نظر دوڑائے تو ایک سکون اس کی رگ و پے ہی نہیں روح تک کو سر شار کرتا چلا جائے۔
جاری ہے۔۔