Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sheraz Ishfaq
  4. Pakistan Aik Riyasat Ya Mandi

Pakistan Aik Riyasat Ya Mandi

پاکستان ایک ریاست یا منڈی

میں عرصہ دراز سے معاشرتی سرگرمیوں، مقاصد، اصلاحات، روایات اور نوعِ انسانی کی نفسیاتی اقدار کا طالبعلم بنا ہوا ہوں اور اسکا شوق اپنے مُلک سے باہر آکر بس جانا اور دو دہائیوں سے زیادہ عرصہ مختلف اقوام اور معاشروں سے آئے ہوئے لوگوں کے ساتھ مسلسل میل ملاپ کا سبب ہے اور پھر سوشل میڈیا پر علم و دانش عام ہو جانے کی وجہ سےلکھنے کی طرف راغب ہوا، کیونکہ علم کا حصول بھی اور تحقیق کا عنصر بھی کافی آسان ہو چکے، بہت زیادہ محنت درکار نہیں ہوتی اور آپ ہر قسم کی معلومات سے مستفید ہو جاتے ہیں، ذاتی تعارف کے بعد۔

اِس تمہید پر آتے ہیں کہ، اک تحریر نظر سے گزری اور دِل و دماغ پر اثر کر گئی کہ "پاکستان ایک ریاست نہیں بلکہ اک ایسی منڈی ہے جہاں سب کچھ بکاؤ ہے" اور آپ کو یہاں رہنے کیلئے اپنے خرید نے کی طاقت اور خود کو فروخت کرنے کی قیمت کا صحیح تعین کرنے کا ہنر آنا چاہئے وگرنہ آپ بے مول ہی مارے جائیں گے، بک جائیں گے۔ اسکی مثال خود کو جنگل میں محسوس کرنے جیسی ہے اور آپ کو نصیحت ہے کہ اُن فنونِ بقائے حیات کی طرف راغب ہوں جو آپکو اِس جنگل کے باسیوں سے بچائیں گے اور اُس مشہور مکالے کی روشنی میں کہ "بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی" کے مصداق آپ کی جان و مال، عزت و آبرو مسلسل خطرے میں ہی ہے اور آپ خود کو حالتِ جنگ میں ہی تصّور کریں۔

تحریر سے اقتباس کچھ یوں ہے کہ اِس نام نہاد مملکتِ پاکستان کا جو حال اور عوام الناس کا جو احوال ہے کچھ یوں ہے کہ، نہ کوئی میرٹ، نہ اصول و ضوابط، نہ انصاف، اخلاقی اقدار کی تو دھجیاں ہی اُڑا دی گئی ہیں، ہر چیز کی بولی لگ رہی اور صاحبِ منصب و اختیارخریدار کا منتظر، حب الوطنی صرف جذباتی نعروں میں اور عزت صرف کنارہ کشی اختیار کرنے میں ہی رہ گئی۔ مگر یہ سب ایک دن میں نہیں ہوا، نہ ہی کسی ایک دہائی کا شاخسانہ ہے، اس تباہی کے ذمہ دار کون ہیں؟

سیاسی قوتیں؟ جو اقتدار کے ساتھ سالوں سے چمٹی ہوئی ہیں اور اسکی ہوس میں سب کچھ بیچ دیتے ہیں، کبھی ضمیر، کبھی عزت اور کبھی پیچھے چلنے والی عوام۔

بیوروکریٹس؟ جو اِس معاشرے کا تعلیم یافتہ مگر انتہائی بھوکا اور ریاستی مفاد کو اپنے ذاتی مفاد پر بیچ دینے والا طبقہ ہے اور سیاسی مشینری کی حیثیت رکھتا ہے۔

جوکر نما مذہبی پیشوا؟ جو دین کو کاروبار بنا چکے ہیں، عقیدت کو بیچ کر اپنی اولادوں کیلئےگدیاں اور محل تعمیر کرتے ہیں اور عام فہم لوگوں کی آنکھوں پر اندھی تقلید کی پٹی باندھ دیتے ہیں۔

انتظامی حکام؟ جو ہمارے ہی گھروں سے نکل کر اداروں کا حصّہ بنتے ہیں اور اپنے حال پر مستقبل کو بیچ دیتے ہیں، جو مگر مچھوں کی خوراک کا انتظام کرتے اور ظالموں کے معاون بن جاتے ہیں۔

عدالتی نظام؟ وہ وکیل جو قانون کی پاسبانی کی بجائے، اِس کی تجارت کرنے والے بن چکے ہیں اور انصاف فراہم کرنے والے قاضی جو معاشرتی اصلاح کی کرسی پر بیٹھ کر فیصلے ضمیر سے نہیں، بلکہ طاقتور کے اشاروں پر کرتے ہیں۔

اسٹیبلشمنٹ؟ جو ریاست کے اصل چہرے کے پیچھے چھپ کر کھیل کھیلتی ہے، اقتدار کے فیصلے بند کمروں میں کرتی ہے اور عوام کو محض مہرے بنا کر استعمال کرتی ہے اور ریاست کے اندر پوشیدہ ریاست بنا کر بیٹھی ہوئی ہے، جن کا کام عوام کی حفاظت کرنا ہے مگر وہ انکی بوٹیاں بیچ رہی ہے۔

مگر یہ سب لوگ کچھ بھی اکیلے نہیں کر سکتے اور نہ ہی کر رہے ہیں، ان کے ہاتھوں میں جو سب سے خطرناک ہتھیار ہے، وہ جاہل عوام ہے، جی ہاں! وہی عام آدمی جو کبھی نعرے لگاتا ہے، کبھی جھنڈے اٹھاتا ہے، کبھی بھیڑ کا حصہ بن کر اپنے ہی حقوق کا قاتل بن جاتا ہے۔ عام آدمی ہی ان کے لیے ایندھن ہے، جسے جذباتی تقاریر، وقتی مفادات اور چھوٹے موٹے لالچ دے کر استعمال کیا جاتا ہے، کبھی قوم پرستی، کبھی مذہب، کبھی فرقہ واریت، کبھی روٹی کی مجبوری سے، ہر بار اسے استعمال کیا جاتا ہے اور ہر بار وہی دھوکہ کھاتا ہے، کیونکہ وہ خود کی خودی سے ہی مخلص نہیں، ہمارا حافظہ کمزور کر دیا گیا ہے۔ ہر نیا زخم پچھلے زخم کی یاد مٹاتا ہے، کیونکہ ہم ہر وقت صرف اپنے حال کے بحران میں الجھے رہتے ہیں۔ ہمیں معلوم بھی نہیں کہ ہم کس گہرائی میں ڈوب چکے ہیں، مگر ہم نے ڈوبنے والوں کے ہاتھ تھامنے کی بجائے، انہیں مزید دھکیلنا سیکھ لیا ہے۔

یہ نظام کسی ایک جھٹکے میں نہیں گرنا، اِس کو گرانےکیلئے نسلیں تیار کرنی پڑیں گی، قُربانی کا اصل جذبہ لانا پڑے گا اور وہ جنگ کرنی پڑے گی جو کہ اصل جہاد، یعنی جہاد بل نفس ہے، خود کو مار کر خودی کی تلاش کرنی پڑے گی اور اُس خودی کو سربلند کرنا پڑے گا، کیونکہ یہ نظام حرام پر لگ چکا، ظلم پر لگ چکا، حقوق کی پامالی پر لگ چکا، اسکو تبدیل کرنے کیلئے انفرادی حیثیت میں خود کو بدلنا ہوگا، خود کو دھوکا دینا بند کریں کہ کوئی مسیحا آئے گا اور سب کچھ دُرست ہو جائے گا، تاریخ گواہ ہے کہ اگر کوئی اکیلا مسیحا اُٹھا بھی ایسے نظام کے خلاف تو اُسکو عبرت کا نشان بنا دیا گیا۔

بحیثیت قوم، جماعت، معاشرہ ایسے نظام کو بدلا جا سکتا ہے، تعلیم پر توجہ دے کر، کامیاب و محفوظ معاشروں کی پیروی کرکے اور اُنکا حصّہ بن کر وہاں سے سیکھ کر آگے بڑھنا ہوگا، قیام پاکستان کے تمام اقابر رہنما بہترین تعلیم یافتہ، انگلستان و فرنگ سے سیکھے ہوئے، قانون دان، مال و دولت کی حوس سے آگے کی سوچنے والے لوگ تھے، اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور سچ کو سچ کہنے، جھوٹ کو پہچاننے اور ظالم کو طاقت وفہم و فراست سے روکنے کی ہمت کرنی ہوگی، چاہے وہ ہمارا لیڈر ہو، ہمارا مذہبی پیشوا ہو، یا ہمارے اپنے گھروں میں سے نکلاکوئی ہو، اِس ظالم نظام پر راج کرنے والوں کے پیادے ختم کرنے ہوں گے یہ خود ہی زمین بوس ہو جائیں گے۔

یہ جنگ کسی اور نے نہیں، ہمیں خود لڑنی ہے۔ اس جہاد بل نفس کا آغاز ہمیں اپنے اندر سے کرنا ہوگا، اپنے رویوں سے، اپنی سوچ سے اور اپنی ترجیحات سے تو یہ اندھیرا چھٹے گا، روشنی آئے گی اور وہ وقت ضرور آئے گا جب پاکستان صرف ایک منڈی نہیں، بلکہ ایک حقیقی ریاست کہلائے گا، جہاں عزت، انصاف اور میرٹ کی حکمرانی ہوگی۔

Check Also

Dil e Nadan Tujhe Hua Kya Hai

By Shair Khan