Izzat Aur Halal Rizq
عزت اور حلال رزق
یہ حدیث "قیامت کی نشانیوں میں سے چھ اہم نشانیاں: نبی ﷺ کی وفات، بیت المقدس کی فتح، ایک وبا جو بکریوں کے طاعون کی طرح لوگوں کو متاثر کرے گی، دولت میں اتنا اضافہ کہ اگر کسی کو سو دینار بھی دیے جائیں، تو وہ مطمئن نہیں ہوگا، ایک آزمائش جو کسی مسلمان گھر کو نہیں چھوڑے گی، اور بنی اسفر کے ساتھ صلح جو بدعہدی کریں گے اور حملہ کریں گے"۔ (صحیح بخاری 3176)
ایک آزمائش جو کسی مسلمان گھر کو نہیں چھوڑے گی، آج کے حالات کو دیکھیں تو اس حدیث میں بیان کردہ آزمائش کی وضاحت ہمارے موجودہ دور پر مکمل طور پر صادق آتی ہے۔ یہ فتنہ ہمارے گھروں میں گھس چکا ہے اور ہماری زندگی کے ہر پہلو کو اپنی گرفت میں لے چکا ہے۔ موجودہ زمانے میں سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی نے وہ کردار ادا کیا ہے جس کی وضاحت صدیوں پہلے اس حدیث میں کر دی گئی تھی۔
ہم نے اپنے بچپن میں سنا تھا کہ ایک وقت آئے گا جب ہر گھر سے ایک ناچنے والی نکلے گی۔ اُس وقت یہ بات سن کر ہمیں حیرت ہوتی تھی۔ ہم سوچتے تھے کہ ناچنے والی تو فلموں میں خاص کرداروں تک محدود ہوتی ہے، اور ان کا معاشرتی مقام ناپسندیدہ ہوتا ہے۔ لیکن وقت کے ساتھ یہ حقیقت بدلتی گئی۔ پہلے لباس اور طور طریقوں میں تبدیلیاں آئیں۔ دوپٹہ جو کبھی حیا کی علامت تھا، پہلے کندھوں پر آ گیا اور پھر مکمل طور پر غائب ہوگیا۔ لباس کی لمبائی اور تراش خراش میں ایسی تبدیلیاں آئیں جنہیں پہلے لوگ دیکھ کر شرمندہ ہوتے تھے۔ ان تبدیلیوں کو فیشن اور ماڈرن انداز کے نام پر معاشرتی قبولیت ملی۔
پھر ڈیجیٹل دور نے ہماری زندگیوں میں قدم رکھا۔ اسمارٹ فون اور انٹرنیٹ ہر ہاتھ میں آ گیا۔ یہ ایسی تبدیلی تھی جس نے وقت کے ساتھ ساتھ ہمارے گھروں کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ انٹرنیٹ نے جو مواد فراہم کیا، وہ نہ صرف ہماری روایات بلکہ ہماری نئی نسل کی اخلاقیات کو بری طرح متاثر کر رہا ہے۔ ٹک ٹاک اور انسٹاگرام جیسے پلیٹ فارمز نے نہ صرف فحاشی کو عام کیا بلکہ اس کو ایک کامیابی اور ترقی کے راستے کے طور پر پیش کیا۔
ایک وقت تھا جب لوگ ان پلیٹ فارمز پر نظر آنے والے کرداروں کو حیرت سے دیکھتے تھے، مگر آج وہی کردار ہمارے اپنے گھروں کے اندر پیدا ہو چکے ہیں۔ آج کل کی نوجوان نسل کے لیے یہ چیزیں عام ہو چکی ہیں، اور والدین نے بھی اس پر روک ٹوک ختم کر دی ہے۔ جو والدین اعتراض کرتے ہیں، انہیں دقیانوسی اور قدامت پسند کہہ کر چپ کرا دیا جاتا ہے۔
ہماری معاشرتی تبدیلیوں کا سفر یہیں ختم نہیں ہوا۔ آج کل کے والدین خود اپنی اولاد کو ایسے پلیٹ فارمز پر جانے کی اجازت دیتے ہیں تاکہ وہ "ماڈرن" کہلائیں۔ لڑکیاں اور لڑکے اپنے گھروں کے اندر ناچتے ہیں، ویڈیوز بناتے ہیں، اور فالوورز کے حصول کی دوڑ میں ہر حد پار کرتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ اپنے عزت و وقار کو پیچھے چھوڑ دیتے ہیں۔
یہ سب صرف اخلاقی زوال نہیں بلکہ مذہبی اصولوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ والدین اپنی اولاد کو ایسے شعبوں میں جانے کی اجازت دیتے ہیں جہاں عزت و حیا کا کوئی تصور نہیں رہتا۔ وہ یہ نہیں سمجھتے کہ ایسی کمائی حرام کے زمرے میں آتی ہے۔ حرام کمائی چاہے وہ جسم فروشی سے ہو، نشہ آور چیزیں بیچنے سے، یا کسی اور غیر اخلاقی طریقے سے، اس کا انجام تباہی کے سوا کچھ نہیں۔
ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنی نسلوں کو صحیح راستے پر ڈالیں۔ ہمیں ان کو یہ سمجھانا ہوگا کہ دنیا میں عزت و وقار سے جینے کے اور بھی طریقے ہیں۔ انہیں یہ بتانا ہوگا کہ کامیابی صرف پیسے میں نہیں بلکہ ایک باعزت اور حلال زندگی میں ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کی تربیت پر توجہ دیں اور ان کو ایسی سرگرمیوں سے دور رکھیں جو ان کی عزت اور ایمان کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔
ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ یہ فتنہ ہمارے گھروں میں داخل ہو چکا ہے اور اس کے اثرات ہر طرف پھیلے ہوئے ہیں۔ والدین اور گھر کے سربراہوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے گھروں کو اس فتنہ سے محفوظ رکھیں۔ یہ وقت ہے کہ ہم اپنی اولاد کی تربیت میں سختی کریں اور ان کو یہ سکھائیں کہ عزت اور ایمان کی حفاظت سب سے زیادہ ضروری ہے۔
یہ ضروری ہے کہ والدین اور معاشرے کے تمام ذمہ دار افراد مل کر اس برائی کا سدباب کریں۔ ہم سب کو اپنی نئی نسل کو یہ باور کرانا ہوگا کہ کامیابی کے لیے حلال اور جائز طریقے ہی بہترین ہیں۔ یہ نہایت ضروری ہے کہ ہم اپنے گھروں میں حلال کمائی اور عزت و وقار کے اصولوں پر عمل کریں۔ یہ ہمارا مذہبی اور اخلاقی فرض ہے کہ ہم اپنی نسلوں کو اس فتنے سے بچائیں جو ان کی دنیا اور آخرت دونوں کو تباہ کر سکتا ہے۔