Hasad Aur Bughz Se Bachen
حسد اور بغض سے بچیں
حالیہ کچھ واقعات نے یہ سوچنے اور لکھنے پر آمادہ کیا کہ حسد اور مقابلے کی ذہنیت انسانی نفسیات کا ایک اک منفی پہلو ہے، جو ہماری زندگیوں میں مختلف طریقوں سے ظاہر ہوتی ہے۔ جب ہم دوسروں کی کامیابیوں کا مشاہدہ کرتے ہیں تو اکثر ہمارے دلوں میں ایک عجیب سی بے چینی پیدا ہوتى هے اور یہ احساس ہمیں حسد کے زہر میں مبتلا کرتا هے۔
یہ ایک ذاتی ناکامی کی عکاسی کرتا ہے بلکہ یہ ایک ایسا جذباتی ردعمل بھی ہے جو ہمیں اپنے آس پاس کے لوگوں کے بارے میں منفی خیالات میں مبتلا کر دیتا ہے۔ ہم اکثر دوسروں کی کامیابیوں میں خامیاں تلاش کرنے لگتے ہیں، نہ صرف اس لیے کہ ہمیں اپنی ناکامیوں کا سامنا کرنا مشکل لگتا ہے بلکہ اس لیے بھی کہ ہم اپنی زندگیوں کی خالی جگہوں کو بھرنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ اس بات پر مجبور کرتا ہے کہ وہ دوسروں کی کامیابیوں کو اپنی ناکامیوں کا جواز سمجھیں۔
جب یہ احساس شدت اختیار کر لیتا ہے تو یہ لوگ دوسروں کے خلاف سازشیں کرنے لگتے ہیں، ان کی کامیابیوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں، اور وہ دوسروں کی کامیابیوں میں رکاوٹیں کھڑی کرکے اپنی ذہنی و دلی تسکین پیدا کرتے ہیں، یہ حسد، بغض اور کم ظرفی کی علامت ہیں۔
حسد کی یہ نفسیات انفرادی سطح پر ہی نہیں بلکہ معاشرتی سطح پر بھی ایک سنگین مسئلہ ہے۔ جب لوگ ایک دوسرے کی کامیابیوں میں رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں تو یہ معاشرتی روابط کو متاثر کرتا ہے۔ اس سوچ کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایک تخریبی عمل شروع ہو جاتا ہے، جس میں ہر شخص دوسرے کی کامیابی کو اپنے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔
دوسروں کی کامیابیوں میں عیب تلاش کرنے کا یہ عمل ایک غیر صحت مند رویہ ہے، جو نہ صرف خود کو نقصان پہنچاتا ہے بلکہ دیگر افراد کو بھی متاثر کرتا ہے۔ اگر ہم اپنے ارد گرد کے لوگوں کی کامیابیوں کو ناپسندیدہ نظر سے دیکھیں گے تو اس سے نہ صرف ہم خود کو بلکہ اپنے معاشرے کو بھی نقصان پہنچائیں گے۔ یہاں پر ایک بہت اہم نکتہ ہے کہ ہمیں دوسروں کو نقصان پہنچائے بغیر اپنی ترقی کے مواقع تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
اگر ہم دوسروں کی کامیابیوں سے سیکھیں گے تو ہم خود بھی بہتر نتائج حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ نقطہ نظر ہمیں یاد دلاتا ہے کہ زندگی میں آگے بڑھنے کے لیے، ہمیں دوسروں کے ساتھ تعاون کرنے کی ضرورت ہے۔ جب ہم دوسروں کی کامیابیوں کو چیلنج کى بجائے موقع کے طور پر دیکھیں گے تو ہم اپنی زندگیوں میں مثبت تبدیلی لا سکتے ہیں۔ دوسروں کی کامیابیوں کا جشن منانا اور ان کے ساتھ مل کر کام کرنا ہمیں خود کو بھی بہتر بنانے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ اس عمل میں، ہم اپنی ناکامیوں کو دوسروں پر ڈالنے کى بجائے اپنی کامیابیوں کی راہ ہموار کرنے کا ذریعہ سمجھیں تو ہم سب کو ساتھ لیکر چل سکتے ہیں۔
حسد کے احساس کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ یہ ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے سے روکتا ہے۔ اگر ہم اپنے دلوں میں دوسروں کے لیے محبت اور احترام پیدا کریں تو ہم ان کی کامیابیوں کو اپنی ترقی کا ذریعہ سمجھنے لگیں گے۔ اس کے نتیجے میں، ہم ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں گے اور اس طرح ہم سب کو ترقی کی راہ پر لے جا سکیں گے۔ کامیابیوں کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ ہمیں ان کا سامنا مثبت طریقے سے کرنا چاہیے۔ دوسروں کی کامیابیوں کو دیکھ کر ہمیں ان کی خوبیوں کو نمونہ بنانا چاہیے۔ جب ہم دوسروں کی کامیابیوں کو مثبت نظر سے دیکھیں گے تو ہمیں ان کے پیچھے کی محنت، جدوجہد اور مہارتوں کا اندازہ ہوگا اور انکی قابلیت کی قدر ہوگی۔
اگر ہم حسد اور رقابت کو چھوڑ دیں تو اس کا اثر ہماری ذات پر سب سے پہلے ظاہر ہوگا۔ دل سے نفرت اور حسد نکل جائے تو سکون اور اللہ سبحان و تعالیٰ کی دی گئی نعمتوں پر شکر گزاری آتی ہے۔ ذہنی دباؤ کم ہو جاتا ہے، اور انسان زیادہ خوش اور مطمئن رہنے لگتا ہے۔ حسد اور رقابت سے آزاد ہو کر ہم اپنی توانائی کو اپنی ترقی اور بہتری کے لیے استعمال کر سکتے ہیں، جس سے ہماری کارکردگی اور خود اعتمادی میں اضافہ ہوتا ہے۔
اگر ہم حسد کى بجائے محبت اور احترام کا رویہ اپناتے ہیں تو گلی محلے، خاندان کا ماحول خوشگوار ہو جاتا ہے۔ باہمی تعلقات مضبوط ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ مل کر چلنے کا رجحان پیدا ہوتا ہے۔ تنازعات کم ہوتے ہیں، ہم آہنگی بڑھتی ہے اور افراد ایک دوسرے سےخوش ہونے لگتے ہیں۔ معاشرے پر اس کا اثر وسیع پیمانے پر محسوس کیا جا سکتا ہے، معاشرتی فلاح و بہبود میں اضافہ ہوتا ہےاور معاشرہ زیادہ پُرامن بن جاتا ہے۔ اگر ہم دینی نقطۂ نظر سے دیکھیں تو اسلام ہمیں حسد اور رقابت جیسے منفی جذبات کو ترک کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔
قرآن پاک اور احادیث میں بارہا محبت، بھائی چارےکو اپنانے کی تلقین کی گئی ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: "تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے بھائی کے لیے وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے کرتا ہے"۔ اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ حسد اور رقابت کو دل سے نکال کر دوسروں کی کامیابیوں پر خوش ہونا ایمان کا حصہ ہے۔ اگر ہم اپنی زندگی میں اس اصول کو اپنائیں، تو نہ صرف ہمارے دل سے منفی جذبات کا بوجھ ہلکا ہوگا، بلکہ اللہ کی رضا بھی حاصل ہوگی۔