Andhe Rajay, Boseeda Muashra
اندھے راجے، بوسیدہ معاشرہ
معاشرہ ہے کیا، یہ انسانوں کا مجموعہ ہے جو ایک دوسرے کے ساتھ ازل سے ابد تک ایک گروہ کی شکل میں تغیرِ وقت کو مدِنظر رکھتے ہوئے کچھ بنیادی اور مستند اصولوں، فلاحی اقدار، ترقی یافتہ تصورات اور ذہنی ہم آہنگی کے تحت زندگی گزارتے ہیں اور اس طرزِ زندگی کو اجتماعی معاملات کی روشنی میں ترتیب دیتے ہیں تاکہ اک ایسا نظام وجود میں آئے جس سے انفرادی ذمہ داریوں، حقوق اور ضرورتوں میں توازن قائم ہو سکے۔ اس کی بنیاد بنی نوع انسان نے تجرباتی علوم اور آسمانی احکامات کے حسیں امتزاج سے رکھی جس میں اختلاف رائے تو ہے مگر بنیادی چیزیں تقریباً ایک جیسی ہی ملیں گی جو زندگی گزارنے کیلئے کافی ثابت ہوتی آئی ہیں اور اسکے بگاڑ کے اہم عناصر ناانصافی، رنگ و نسل کا فرق، ذاتی خواہشات کا غلبہ اور وسائل پر قبضے کا لالچ ٹھہرا۔
یہ سطور لکھنے کی وجہ میری قلم دوستی اور مختلف معاشروں میں رہنے کا تجربہ رکھنا ہے کہ میں معاشرتی علوم کا اک ادنیٰ طالبعلم ہوں، وہ معاشرتی علوم نہیں جو پاکستان کے نصاب میں پڑھائی جاتی ہے اور بچپن کی پُر لطیف یادوں کا باعث بنتی ہے، جس پر بعد میں صرف قہقے لگائے جا سکتے ہیں۔ بلکہ وہ معاشرتی علوم جو کہ حقیقت میں نصاب کا حصہ ہونی چاہیے "جہاں مختلف معاشروں کا تقابلی تجزیہ اور انکی خوبیوں سے استفادہ کرنا ہونا چاہئے، مگر ایساکیا نہیں جاتا، تا کہ معاشرے میں جاہلیت کی پیداوار زیادہ اور فہم و فراست کا فقدان رکھا جائے، پھر ہی تو اندھوں کے معاشرے وقوع پذیر ہوں گے اور اُن پر کانے راجے نسل در نسل راج کریں گے۔
المیہ اس سے بھی بدتر یہ ہے کہ اگر کوئی اندھا اپنا علاج کروانا بھی چاہے تو اُسکی اجازت نہیں اور اگر لاحاصل وہ یہ علاج خوش قسمتی سے کہیں کروا بھی لے تو ایسا نظام ترتیب دے دیا گیا ہے کہ وہ راجہ بن کر اس بوسیدہ نظام کو بدل نہیں سکتا اور بہتر معاشرہ تشکیل نہیں پا سکتا اور وہ لاچار زندگی کو عزیز رکھتے ہوئے یا تو اپنی ریاست بدل کر بہتر معاشرے کو مسکن بنا لیتا ہے یا شکست تسلیم کرتے ہوئے راجوں کا کارِ خاص بن کر مزید اندھے پیدا کرنے کے نظام کا متولی بن جاتا ہے، ہمارے حکمران وہ اندھے راجے اور ہماری تمام تر افسر شاہی انکے نظام کے متولی ہونے کی بہترین مثال ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں جو آپکی ضرورتوں کے حل کا سوچنے کی بجائے، اُن کو بنیاد بنا کر اپنی ضرورتیں تو چھوڑ اپنی خواہشیں پوری کرتے ہیں۔
یہی وہ بنیادی وجہ ہے کہ ہمارا معاشرہ ایک ناکام معاشرے کی شکل اختیار کر چکا ہے، جس کے بنیادی تصورات کمزور یا معدوم ہو چکے ہیں اور جہاں افراد کے زندگی گزارنے کی سمت اور ان کی ذمہ داریاں غیر واضح یا منتشر ہو چکی ہیں۔ ایسے معاشرے میں آپ دیکھیں گے کہ صاحبِ اقتدار کی سوچ اور فیصلے محض سطحی ہوتے ہیں اور اُن فیصلوں میں فردِ واحد کی ذاتی ترجیحات اور مفادات کو مجموعی معاشرے پر فوقیت دے دی جاتی ہے اور انکے اپنی بنیادی ذمہ داریوں سے انحراف، انکی طرف سے اخلاقی اقدار کی پامالی اور معاشرتی مسائل کو نظر انداز کرنے پر کوئی پوچھنے والا ہی نہیں۔
ایسے معاشرے کو لگڑی جمہوریت سے چلایا جاتا ہے، جہاں علم و فہم کے مقابلے پر اپنے سسٹم کے ذریعے پیدا کیے گئے جاہل کھڑے کر دیے جاتے ہیں اور اک دانشمند لفظ کے مقابلے پر سو اناڑی الفاظ کا پہرہ لگا دیا جاتا ہے، جہاں سچ خوف کے ماتحت، دلیل شور تلے اور دانشمندی بحث و مباحثے کی نظر ہو جاتی ہے، دین کی اصل شکل جوشیلے مناظروں سے فسخ اور غیر ضروری موضوعات میں الجھ کر رہ جاتی ہے۔ یہ ایسا المیہ ہے کہ ایسا معاشرہ اپنی سمت کا تعین ہی نہیں کر پاتا اور اس میں بسنے والے لوگ اپنی وقتی خوشی پر دائمی سکون کو قربان کرنے کی سوچ کا شکار ہو جاتے ہیں کیونکہ طویل مدتی اصلاحات اور عادات کی تربیت ہی ممکن نہیں ہو پاتی، اس لیے، کوئی شخص جو ہمیں سچ بول کر تکلیف دیتا ہے، وہ ہمیں ان لوگوں سے کہیں بہتر ہے جو ہمیں بکواس سے ہنسانے کی کوشش کرتے ہیں۔
ایسے معاشرے میں سیاست عقل و فہم سے زیادہ جذبات کوبھڑکا کر کی جاتی ہےاور لوگ مسائل کا حقیقت پسندانہ حل تلاش کرنے کی بجائے، جذباتی طور پر ردعمل ظاہر کرتے ہیں اور یہ ردعمل تباہ کن ثابت ہوتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب تک معاشرتی اصولوں پر عمل نہیں کیا جاتا اور اصول پر مبنی عقل و فہم کو اہمیت نہیں دی جاتی، معاشرتی ترقی کا خواب محض ایک خواب ہی رہ جاتا ہے۔ لوگ کھیل تماشوں کی طرف گامزن اور تفریح کے متوالے ہو جاتے ہیں اور بے قابو نفس انکو اپنا یرغمال بنا لیتا ہے، آجکل آپکو ایسے معاشروں میں یہی چلتا نظر آئے گا جہاں تفریح کے نام پر ہیجان انگیز غلاظت کا راج ہے۔
حقیقتاً ہمارے معاشرے کو تیزاب سے دھو دینے والی مثال کے مصداق اصلاحات کی ضرورت ہے، جو علمی ہنر، تحقیقی پیشرفت اور تخلیق سوچ کو جامع عمل پہنا کرممکن ہے، جو ہندوستان، چائنہ اور ملائشیاء جیسے ممالک نے اپنی اقتصادی ترقی سےکر دکھایا اور کچھ گنے چنے عرب ممالک بھی اس میں شامل ہیں جو ریگستان کو گلستان میں بدلنے کا کارنامہ انجام دے چکے، یہ وہ معاشرے ہیں جہاں ہر فرد کو اس بات کا موقع مل رہا کہ وہ اپنی قابلیت اور صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر معاشرتی ترقی میں حصہ ڈال سکے۔
میں ایک بات پر روشنی ڈالتا چلوں کہ تعلیم کا مقصد محض ڈگریاں حاصل کرنا نہیں، بلکہ سوچنے، سمجھنے اور مسائل کا حل نکالنے کی صلاحیت پیدا کرنا ہوتا ہے۔ اسی تعلیم کو عملی جامہ پہنا کر تربیت میں بدلنے کی بدولت لوگ ذمہ دار شہری بنتے ہیں جو اپنے حقوق کے ساتھ ساتھ اپنے فرائض کا بھی بھرپور ادراک رکھتے ہیں۔
معاشرے کو ترقی یافتہ بنانے میں قانون کی پاسداری اور انصاف کا نظام سب سے مضبوط ستون ہوتا ہے، کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں ہوتا اور انصاف ہر فرد کو بلا تفریق فراہم کیا جانا چاہئیےاور اس کے علاوہ، ایسے معاشروں میں سماجی فلاح و بہبود پر خصوصی توجہ اور معاشرتی تفریق کو کم سے کم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جوعوام اور حکومت کے درمیان اعتماد اور تعاون کا مضبوط رشتہ ہوتا ہے، جو ان کے اجتماعی مقاصد کو کامیابی کی طرف لے جاتا ہے۔
اگر ہم بھی اپنے معاشرے کو ناکامی سے نکال کر ترقی کی طرف لے جانا چاہتے ہیں، تو ہمیں ترقی یافتہ معاشروں کے ان اصولوں اور اقدار کو اپنانا ہوگا۔ ہمیں اپنے نظامِ تعلیم کو بہتر بنانا ہوگا، انصاف کے نظام کو مضبوط کرنا ہوگا اور قانون کی پاسداری کو یقینی بنانا ہوگا۔ ہم میں سے ہر فرد کو یہ سمجھنا ہوگا کہ معاشرتی ترقی کا آغاز انفرادی ذمہ داری سے ہوتا ہے۔ جب ہم اپنی سوچ کو بہتر کریں گے، حقیقت کو اپنائیں گے اور اپنی توانائی مثبت سمت میں استعمال کریں گے، تبھی ہم ایک کامیاب اور ترقی یافتہ معاشرے کا خواب حقیقت میں بدل سکیں گے۔