8 Rules Of Love
8 رولز آف لوو
یہ کتاب تب میری نظر سے گزری جب میں نے معروف ٹینس سٹار ثانیہ مرزا کی فیس بک پوسٹ پر یہ اسکے ہاتھوں میں دیکھی۔ مجھے تجسس ہوا اور اسی متجسس احساس سے میں نے اسکو آن لائن ڈھونڈ کر اسکے اوراق پلٹے لیکن جو خیالات اور احساسات اس نے میرے اندر بیدار کیے، وہ میرے لیے غیر متوقع تھے۔ یہ کتاب میرے نظریات اور محبت کے تصور پر ایک گہرا اثر ڈالنے کا ذریعہ بنی۔
میں نے محسوس کیا کہ اس تجربے کو صرف خود تک محدود رکھنا ٹھیک نہیں، بلکہ ان خیالات کو ان لوگوں تک بھی پہنچانا ضروری ہے جو کتب بینی سے دور ہیں لیکن آرٹیکل یا فیسبک تحریر کے ذریعے اپنے خیالات کو پروان چڑھانے کے خواہاں ہیں۔ یہ مضمون اسی مقصد سے تحریر کیا گیا ہے تاکہ ان کے لیے مشعل راہ بن سکے۔
اس مطالعے نے مجھے محبت کو ایک جذباتی وابستگی کے بجائے شعور کے طور پر دیکھنے کا نیا زاویہ دیا۔ اس میں یہ بات شدت سے محسوس ہوئی کہ رشتوں کو صرف جذباتی سہارا دینے کا نام نہیں بلکہ یہ خود کو بہتر بنانے اور ایک دوسرے کے ساتھ بڑھنے کا سفر ہے۔ ہم میں سے اکثر لوگ دوسروں سے مکمل ہونے کی امید رکھتے ہیں، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ہمیں خود اپنی ذات کے ساتھ مکمل ہونا سیکھنا چاہیے۔ خود شناسی اور جذباتی خودمختاری وہ بنیاد ہے جو ایک مضبوط اور پائیدار رشتے کی تشکیل میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔
رشتوں میں اکثر ہم اپنی توقعات کے بوجھ سے انہیں پیچیدہ بنا لیتے ہیں۔ محبت میں حقیقت پسندی ضروری ہے۔ ہمیں دوسروں کو اپنی خواہشات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش چھوڑ کر اللہ کی مرضی اور فطرت کے اصولوں کو قبول کرنا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو منفرد اور اپنی فطرت کے مطابق پیدا کیا ہے، اور اس حقیقت کو اپنانا رشتوں کو آسان اور پائیدار بنا دیتا ہے۔
قرآن پاک میں اللہ فرماتا ہے "اور ہو سکتا ہے تم کسی چیز کو ناپسند کرو اور وہی تمہارے لیے بہتر ہو"۔ (البقرہ: 216)
یہ آیت کہ اللہ کی مرضی ہماری مرضی سے کہیں بہتر ہے۔ فطرت، جو اللہ کی تخلیق ہے، کبھی بھی انسانیت کو نقصان نہیں پہنچاتی، نقصان اس وقت ہوتا ہے جب ہم اپنی خواہشات اور غلط فیصلوں سے اللہ کے دیے ہوئے راستے سے دور ہو جاتے ہیں۔
اس مطالعے نے یہ بھی سکھایا کہ رشتے ایک سیکھنے کا عمل ہیں، جہاں ہر غلطی ایک سبق ہوتی ہے اور ہر معافی ایک موقع۔ اگر ہم رشتوں میں ایک دوسرے سے سیکھنے کا رویہ اپنائیں اور دوسروں کو معاف کرنے کا ہنر پیدا کریں، تو ہم اپنی زندگیوں کو زیادہ بامقصد بنا سکتے ہیں۔ محبت میں صبر اور شکر کی اہمیت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ یہی وہ عناصر ہیں جو ہمیں اللہ کی رضا پر راضی رہنے کا ہنر سکھاتے ہیں۔
میں نے اس بات کو بھی محسوس کیا کہ اکثر لوگ رشتوں میں اپنی شناخت کھو دیتے ہیں۔ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ محبت کا مطلب خود کو ختم کر دینا نہیں بلکہ اپنی ذات کو برقرار رکھتے ہوئے دوسرے کے ساتھ جڑنا ہے۔ جب ہم خود کو پہچان لیتے ہیں اور اپنی شناخت برقرار رکھتے ہیں، تو ہم اپنے رشتوں میں زیادہ مخلص اور پائیدار ثابت ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ بھی ہمیں اس بات کی تلقین کرتا ہے کہ ہم اپنی ذات کی بہتری پر توجہ دیں، کیونکہ یہ عمل نہ صرف ہماری بلکہ دوسروں کی زندگیوں میں بھی برکت کا باعث بنتا ہے۔
ایک اور بات جو میرے ذہن میں واضح ہوئی وہ یہ تھی کہ محبت صرف خوشیوں کے لمحات میں ساتھ نبھانے کا نام نہیں، بلکہ آزمائش کے وقتوں میں بھی ایک دوسرے کا سہارا بننا ضروری ہے۔ اللہ کی طرف سے دی گئی آزمائشیں انسان کی ترقی اور اصلاح کا ذریعہ ہوتی ہیں، اور محبت میں ان آزمائشوں کو مل کر جھیلنا رشتے کو مضبوط بناتا ہے۔
محبت ایک مسلسل سیکھنے اور بڑھنے کا عمل ہے، جس میں ہمیں ہر لمحہ کچھ نہ کچھ نیا سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ اللہ نے ہمیں جذبات اور عقل دونوں عطا کیے ہیں تاکہ ہم اپنے رشتوں کو شعوری طور پر پروان چڑھا سکیں۔ جب ہم اپنے رشتوں میں اللہ کی رضا کو فوقیت دیتے ہیں، تب ہی ہم ایک صحتمند اور بامعنی تعلقات قائم کر سکتے ہیں۔
اس تجربے نے میرے لیے محبت کا ایک نیا تصور پیش کیا اور مجھے سکھایا کہ محبت کا سفر محض ایک خواب نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے، جسے شعوری طور پر اپنایا جا سکتا ہے۔ میں نے یہ مضمون اس نیت سے تحریر کیا ہے کہ جو لوگ کتب بینی سے دور ہیں، وہ بھی ان خیالات سے متاثر ہو کر اپنی زندگیوں میں مثبت تبدیلی لا سکیں۔ اللہ کی رضا کو قبول کرتے ہوئے، اپنے رشتوں میں حقیقت پسندی اختیار کرکے، اور اپنی ذات پر کام کرتے ہوئے ہم اپنی اور دوسروں کی زندگیوں میں بہتری لا سکتے ہیں۔
یہی محبت کا شعوری سفر ہے۔۔ جہاں ہم اللہ کی مرضی کو اپنا کر، اپنی ذات کو سمجھ کر، اور اپنے رشتوں کو پروان چڑھا کر اپنی زندگیوں میں سکون اور خوشی پیدا کر سکتے ہیں۔