Tehreek e Insaf Ki Nayi Tehreek
تحریک انصاف کی نئی تحریک
بانی تحریک انصاف عمران خان کے خلاف مختلف قسم کے پروپیگنڈے گردش کررہے ہیں بعض اہل قلم کے مطابق عمران خان کی مشکلات میں اضافہ ہوچکا ہے اور بعض کے مطابق عمران خان کے لیے بہت جلد آسانیاں پیدا ہوں گیں۔ تحریک انصاف کے بعض کارکنان بضد ہیں کہ ٹرمپ عمران خان کے دوست بھی ہیں اور وہ بھی اینٹی اسٹبلشمنٹ بھی۔ اس لیے وہ کسی طور بھی کسی سیاسی رہنما یا اپنے کسی دوست پر اسٹبلشمنٹ کے مظالم برداشت نہیں کرسکتے اس لیے وہ عمران خان کی رہائی کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے۔ تاہم تحریک انصاف کے اہم رہنماؤں نے اس تاثر کو ماننے سے نہ صر ف انکار کیا ہے بلکہ سخت الفاظ میں ان کی تردید کرتے ہوئے اسے تحریک انصاف کے منشور کے خلاف قرار دیا ہے۔
تحریک انصاف امریکہ کی غلامی کے خلاف تحریک چلاتے ہوئے اس قدر سختیاں برداشت کی ہیں امریکہ سے امید لگانی ہوتی تو اس تحریک کا آغاز ہی نہ کرتی۔ اب ہماری تحریک اس قدر پختہ ہوچکی ہے کہ ٹرمپ کے چچا بھی سفارش کریں تو تحریک انصاف اپنے موقف سے نہیں ہٹے گی۔ دوسری طرف یہ خبر بھی ملی ہے کہ اڈیالہ جیل میں گزشتہ روز چند اہم شخصیات نے عمران خان سے ملاقات کی اور مفاہمت کی کوشش کی لیکن عمران خان نرم پڑنے کی بجائے ان اشخاص پر برس پڑا۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ اڈیالہ جیل سے میری لاش جائے گی لیکن مفاہمت نہیں ہوسکتی۔
اڈیالہ جیل میں عمران خان سے ملاقات کے لیے جانے والے اس وفد کی تصدیق مشہور اور سینئر صحافی حامد میر نے بھی کی اور اُنھوں نے کافی تفصیل سے اس حوالے سے گفتگو بھی کی ہے۔ عمران خان کم و بیش چار سو دنوں سے اڈیالہ جیل میں قید ہیں، قید کے دوران ان کے رویے میں تبدیلی نہیں آئی۔ عمران خان کو توڑنے کے لیے بہت سے حربے استعمال کیے گئے یہاں تک کہ ان کی بیوی بشریٰ بی بی جن کا سیاست سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں تھا اسے بھی جیل میں ڈال دیا گیا اور یہ افواہیں بھی پھیلی کہ بشریٰ بی بی کو زہر دے دیا گیا ہے۔ عمران خان کی بہنوں کو بھی جیل کی ہوا کھانی پڑی پارٹی پر پابندی لگ گئی۔ رہنماؤں پر بے تحاشا تشدد کیا گیا لیکن اس کے باوجود بھی عمران خان کا سر نہیں جھکا۔ وہ ہر سختی برداشت کرتے رہے اور قید تنہائی میں چار سو دن گزر گئے۔ بتایا جارہا ہے کہ عمران خان کے موقف میں ذرا برابر بھی تبدیلی نہیں آئی ہے وہ اب بھی اسی طرح کھڑے ہیں جس طرح شروع میں تھے۔
قید میں چند دن، چند ہفتے یا چند مہینے بڑے سخت ہوتے ہیں اس کے بعد انسان جیل کے ماحول کا عادی بن جاتا ہے کچھ یہی کیفیت عمران خان کی ہے۔ عمران خان اب اڈیالہ جیل کے عادی ہوچکے ہیں۔ اب شاید اسے باہر کی دنیا اور جیل کے اندر کی دنیا میں کوئی خاص فرق بھی محسوس نہ ہو۔ دوسری بات یہ ہے کہ عمران خان جیل جانے سے قبل ہی تصوف کا مطالعہ شروع کیا تھا۔ تصوف میں دلچسپی رکھنے والے حضرات اس بات کو سمجھ سکتے ہیں کہ تصوف میں ڈوبنے والے لوگ ہمیشہ تنہائی کو پسند کرتے ہیں اور تنہائی ان کے لیے بہت بڑی غنیمت ہوتی ہے۔
عمران خان کو بھی اگر تصوف کا چسکا لگ چکا ہے تو قید تنہائی کی زندگی اس کی پسندیدہ ترین زندگی ہوگی۔ اڈیالہ جیل سے آنے والی خبروں میں یہ بھی پتہ چلا ہے کہ عمران خان نے پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں اور رہنماؤں کو حکم دیا ہے کہ تحریک میں اور تیزی لائی جائے۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ حکومت کو ابھی اور بھی پاپڑ بیلنے ہوں گے۔ تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت نے مارچ میں اسلام آباد میں ایک بہت بڑے جلسہ عام کے لیے درخواست دے دی ہے اور ایک نئی تحریک کا آغاز کردیا ہے جس سے یہ تاثر بھی ختم ہورہا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ عمران خان کی رہائی کے لیے کچھ کرسکتے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف نے اس تاثر کو بھی زمین میں دفنا کر رکھ دیا ہے۔ تحریک انصاف کے ساتھ اختلافات، رہنماؤں کی غلطیوں اور عمران خان کی غلط پالیسیوں کے باوجود بھی اس بات کا اعتراف کرنا ہی پڑتا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں اور کارکنوں نے جو سختیاں برداشت کی ہیں تاریخ میں ان کی مثال نہیں ملتی۔ اگر تحریک انصاف ان سخت حالات میں سروائیو کرلیتی ہے تو آنے والی وقت میں تحریک انصاف کا مقابلہ کرنا کسی کے بس میں نہیں ہوگی۔