Shehbaz Sharif Ka Oooo Aur Choo Choo Ka Murabba
شہباز شریف کا اووو اور چو چو کا مربہ
وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف بے شک ایک تجربہ کار وزیر اعظم ہیں جن کی کوششوں سے پاکستان میں مہنگائی کی شرح میں کمی ہوئی ہے۔ یہ بات ہر انسان کو ماننی پڑے گی کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کی حکومت میں جب آٹے کی قیمت تین ہزار سے تجاوز کرگئی تو غریب عوام کی چیخیں نکل گئیں لیکن موجودہ حکومت نے آٹے کی قیمت دو ہزار سے بھی کم کردی ہے جس سے عوام کو کچھ نہ کچھ ریلیف ضرور ملی ہے۔ آٹا، گھی اور چینی ایسی ضروریات ہیں جن کے بغیر کوئی شخص بھی گزارہ نہیں کرسکتا اس لیے غریب عوام کے لیے ان چیزوں کی قیمت میں کمی ہی ترقی ہے۔ یہ غریب لوگ معیشت کے اسرار و رموذ اور پیچیدہ باتوں کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔
تاہم وزیر اعظم شہباز شریف کبھی کبھی انتہائی سنجیدہ موقع پر ایسی بات کہہ دیتے ہیں کہ وہ مخالف سیاسی جماعتوں اور عوام کے سامنے مسخرے سے بن جاتے ہیں۔ ان کی نیت پر شک نہیں کیا جاسکتا وہ اصلاح کے جذبے سے سرشار ہوکر کوئی واقعہ سناتے ہیں جس سے وہ اپنے ملک کے باسیوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ بھی ترقی یافتہ ممالک کے لوگوں کی طرح زندگی بسر کریں اور ان کے نقش قدم پر چلیں۔
وزیر اعظم شہباز شریف کے بقول وہ جاپان میں ہونڈا فیکٹری گیا یا پھر وہاں سے گزررہے تھے تو اچانک آواز آئی"اووو"۔ تھوڑی دیر بعد پھر"اووو" کی آواز آئی۔ جب یہ آواز تین دفعہ گونجی تو شہباز شریف کو بتایا گیا کہ یہ ورکر احتجاج کررہے ہیں۔ وزیر اعظم بڑے متاثر ہوئے اور ابھی اپنے عوام کو بتارہے ہیں کہ وہ بھی "اووو، اووو، اووو" کرکے احتجاج کریں۔
اس واقعے کی صداقت کے بارے میں خدا جانتا ہے۔ اچھنبے کی بات یہ ہے کہ کیا ایک ملک کا وزیر اعظم کسی فیکٹری کا دورہ کرے تو وہاں ورکر احتجاج کریں گے۔ کیا جاپان کے حکام شہباز شریف کو ایسی فیکٹری لے کے جائیں گے جہاں ورکر احتجاج پر ہوں۔ ظاہر ہے کسی بھی حکومت اور قوم کے لیے ورکروں کا احتجاج بدنامی کا باعث ہوتا ہے احتجاج کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ان کو حقوق نہیں دیے جارہے ہیں۔ لہذا اس حقیقت کو مد نظر رکھیں تو یہ بات فرضی سی لگتی ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ شہباز شریف عوام کو تو کہتے ہیں کہ "اووو، اووو، اووو" کرکے احتجاج کریں۔ اگر جاپان کا وزیر اعظم پاکستان آجائے تو اس کے دورے کے موقع پر سڑک پر کرفیو کا سماں ہوتا ہے۔ روڈ دور دور تک صاف کیاجاتا ہے۔ روڈ سے گزرنا ناممکن ہوتا ہے۔ پھر تو شہباز شریف کو بھی چاہیے کہ وہ بھی جاپان کے حکام کی طرف عوام اور ورکروں کو تنگ کیے بغیر مختلف مقامات کا دورہ کریں۔
تیسری بات یہ ہے کہ شہباز شریف اپنے ہی ملک میں عوام کا احتجاج برداشت نہیں کرپاتے۔ اگر جاپان کے وزیر اعظم کی موجودگی میں پاکستانی عوام یا کسی فیکٹری کے ملازمین احتجاج کریں۔ وہ "اووو، اووو، اووو" بھی کریں تو شہباز شریف ان کو گولی مروادیں گے۔ مختصر یہ ہے کہ شہباز شریف صاحب عوام سے کبھی "اووو، اووو" کرنے اور کبھی "چوں، چوں، چوں" کرنے کی نصیحت کرتے رہتے ہیں لیکن اسے کبھی یہ توفیق نہیں ہوئی کہ یہ کہہ دے کہ کینیڈا کا وزیر اعظم سائیکل پر دفتر جاتا ہے۔ میں بھی کم ازکم پچاس گاڑیوں کے جلوس کی جگہ اپنی گاڑی میں دفتر جاؤں گا۔ ہم عوام کی طرح شہباز شریف بھی اپنے گریباں میں نہیں جھانکتے دوسروں کو سدھارنے کے لیے "اووو، اووو" اور"چوں، چوں" کا مربع خوب بناتے ہیں۔