Nehatte Logon Par Firing
نہتے لوگوں پر فائرنگ
26 نومبر کو اسلام آباد میں پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں پر جو گولیاں چلائی گئیں اور اس کے نتیجے میں متعد ہلاکتیں ہوئیں یہ بحیثیت آزاد قوم ہم سب کے لیے ایک المیہ ہے۔ ایک طرف پاکستان تحریک انصاف کے قائدین کے لیے شرم کا مقام ہے کہ ان کی وجہ سے متعدد کارکن زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے دوسری طرف حکومت کے لیے بھی یہ واقعہ باعث شرم ہے جس کی ایماء پر نہتے لوگوں پر گولیاں چل گئیں۔ ابھی تک مکمل تصدیق نہیں ہوسکی ہے کہ کتنے لوگ اس سانحے میں جان بحق ہوئے؟ البتہ چھے افراد کی ہلاکت کی تصدیق بی بی سی سمیت اہم صحافیوں نے کی ہے۔
چھے انسانوں کا قتل بھی معمولی بات نہیں ہے جسے یہ کہہ کر نظر انداز کردیا جائے کہ صرف چھے ہی لوگ مرے ہیں۔ ان مرنے والوں کا دکھ ان کے گھر والے اور عزیز ہی جان سکتے ہیں کہ ان کے ہنستے بستے گھر کس طرح اجڑ گئے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا احتجاج کرنے والوں پر فائرنگ کرنے کی اجازت کوئی قانون یا مذہب دیتا ہے۔
اگر یہ مظاہرین کسی حساس مقام پر گھسنے کی کوشش کرتے، کسی اہم مقام پر حملہ آور ہوتے، کسی خاندان کو یرغمال بناتے، کسی حکومتی عہدیدار کے گھر پر حملہ آور ہوتے یا گھر کا گھیراؤ کرتے پھر تو فائرنگ کا کوئی جواز بنتا لیکن ڈی چوک پر جمع ہونا اتنا بڑا گناہ نہیں تھا کہ اس پر معصوم لوگوں کے ساتھ یہ سلوک ہوتا۔
سینئر صحافیوں کے مطابق دن کے وقت تیس پینتس ہزار افراد یہاں پر جمع ہوئے اور رات کو ان کی تعداد صرف پندرہ ہزار رہ گئی تھی یہ لوگ شدید بھوک اور سردی کا شکار تھے اور ہوسکتا ہے کہ رات کے پچھلے پہر یہ سب بھوک اور سردی کے ہاتھوں مجبور ہوکر ڈی چوک چھوڑ دیتے لیکن رات کو بجلیاں بند کرکے اندھیرے میں کارکنوں کے خلاف خوفناک آپریشن کرنا کسی بھی طرح درست نہیں ہے۔
شاید ہی کسی حکومت نے نہتے عوام پر اس طرح کی فائرنگ کی ہو۔ حکومت نے اپنے ہاتھ لہو سے رنگ لیے ہیں جو حکومت بھی عام عوام کا خون کرکے اپنی حکومت کو مستحکم بنانے کی کوشش کر ے تو ایسی حکومت بہت جلد زوال پذیر ہوجاتی ہے کیوں کہ کافر کی حکومت تو قائم رہ سکتی ہے ظالم کی نہیں۔ باقی اللہ کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے جب پڑتی ہے تو بڑے بڑے ظالموں کی آواز حلق میں بند ہوجاتی ہے۔