Agar Hum Jannat Jaen
اگر ہم جنت جائیں
سر اولف کیرو ایک برطانوی ایڈمنسٹریٹر تھے۔ انیس سو چھیالیس اور سینتالیس کے دوران سخت حالات کے باوجود وہ خیبرپختونخوا کے گورنر رہے اور بڑی مہارت سے اس کا انتظام سنبھالا۔ یہاں کے پختونوں کے ساتھ ان کے مراسم بھی تھے اس لیے پشتونوں کی تاریخ میں دلچسپی رکھتے تھے۔ اُنھوں نے پشتونوں کی تاریخ کے بارے میں انتہائی مستند کتاب "دی پٹھان" کے نام سے لکھی۔
گورنر رہنے کے بعد جب وہ خیبرپختونخوا سے رخصت ہورہے تھے کہ الوداعی تقریب میں پشتون احباب سے ان کی آخری ملاقات ہوئی تو ایک بزرگ نے افسوس کے لہجے میں سر اولف کیرو سے عرض کیا کہ مجھے افسوس اس بات کا ہے کہ آخرت میں آپ دوزخ میں جاؤگے اور ہم جنت جائیں گے۔ یہ بات سن کر سر اولف کیرو کے لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ اس نے ارد گرد بیٹھے ہوئے لوگوں کی طرف دیکھا اور گویا ہوئے کہ آپ اگر جنت بھی جاؤگے تو اپنے ان عادتوں اور خصلتوں سے اسے جہنم بنا دو گے جس طرح آپ نے اپنی دنیا کو جہنم بنارکھا ہے اور ہم جہنم بھی جائیں تو اپنی کوشش اور جد و جہد سے اسے جنت بنادیں گے جس طرح ہم نے اپنے علاقوں کو جنت بناکر وہاں پر رہ رہے ہیں۔
سر اولف کیرو کی یہ بات سو فیصد سچ ہے اور اگر سو فیصد سے اگر بڑھ کر کوئی فیصد ہوتی تو یہ فیصد بھی اس کے حصے میں آجاتی۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم سب اپنے علاقے کو بے ایمانی، کرپشن، بد اخلاقی، چوری اور فساد سے جہنم بنا رکھا ہے اور عجیب بات یہ ہے کہ ہم جہاں بھی جاتے ہیں اسی مقام یا شہر کو بھی خراب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کچھ ایسی ہی صورت حال دوبئی میں بھی پیش آئی۔
دوبئی پاکستان کا قریب ترین شہر ہے جہاں روزگار کی فراوانی ہے۔ ترقی میں یہ شہر یورپ کا مقابلہ کرتا ہے اس لیے پاکستانیوں کی بڑی تعداد دوبئی جاکر نوکری کرتی ہے اور اپنے خاندان کی خوشحالی کے لیے تگ و دو کرتی ہے۔ دوبئی کا وزٹ ویزہ بھی انتہائی سستا ہے یہاں تک کہ آنے اور جانے کا خرچہ ایک لاکھ کے قریب ہے جو کہ اکثر لوگ افورڈ کرسکتے ہیں۔ پاکستانیوں کی بڑی تعداد وزٹ ویزہ لے کر دوبئی جاتے تھے اور وہاں جانے کے بعد غائب ہوجاتے۔ کسی کمپنی، دکان یا کسی شخص کے پاس انتہائی کم رقم پر مزدوری کرتے۔
کچھ ہی عرصے بعد یہ لوگ شدید ڈپریشن کا شکار ہوتے کیوں کہ کمپنیاں ان لوگوں سے مشین کی طرح کام لیتیں اور بہت کم معاوضہ دیتیں۔ یہ لوگ شکایت بھی نہیں کرسکتے تھے اور قانونی چارہ جوئی سے بھی قاصر تھے کیوں کہ سامنے آنے پر غیرقانونی رہائش کی وجہ سے ان کو پکڑ کر جیلوں میں ڈال دیا جاتا اور ہزاروں درہم جرمانہ کیاجاتا یوُں ایسے لوگ غلام بن کر رہ گئے۔
دوسری طرف دوبئی کو اس بات کی شدید فکر تھی کہ وہاں بے شمار لوگ غیر قانونی طور پر رہ رہے ہیں۔ اس لیے اُنھیں پاکستانی ویزے پر پابندی لگانی پڑی اور بہت سے شہروں کو بلیک لسٹ کردیا۔ جس کی وجہ سے وہ لوگ بھی متاثر ہوگئے جو قانونی طریقے سے دوبئی میں جاکر کام کرنا چاہتے تھے۔ دوبئی کو جب اس بات کا احساس ہوا تو انہوں نے ایمنسٹی پیکج کا اعلان کردیا جس کے مطابق جو لوگ غیر قانونی طور پر دوبئی میں مقیم ہیں وہ اپنی مرضی سے سامنے آئیں۔ اس صورت میں ان کا جرمانہ بھی نہیں ہوگا، جیل میں بھی نہیں ڈالا جائے گا اور کوشش کی جائے گی کہ ان کو قانونی ویزہ فراہم کیاجائے۔
بیس ہزار سے زائد ایسے لوگ سامنے آئے جنہوں نے غیر قانونی طور پر رہائش اختیار کی تھی۔ ان میں پاکستانی، بنگالی، انڈین، فلپینو وغیر ہ تھے لیکن سب سے زیادہ تعداد پاکستانیوں کی تھی۔ دوسری طرف دوبئی حکام نے اس بات کا بھی شکوہ کیا ہے کہ پاکستان سے بہت سے لوگ بھکاریوں کی صورت میں دوبئی میں داخل ہوتے ہیں اور وہاں مختلف مقامات پر بھیک مانگتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ پاکستان کے لیے ویزہ بند کرنے کی یہ بھی ایک وجہ تھی۔
دوسری طرف لندن کی سڑکوں میں پاکستانیوں کے طور طریقوں کو دیکھ کر بھی اولف کیرو کی وہ بات یاد آتی ہے کہ ہم پاکستان کو تو اس قدر غیر محفوظ بنادیا ہے کہ یہ یہاں پر کوئی بڑی شخصیت سڑک پر واک کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا کہ پتہ نہیں کب کوئی مخالف کارکن یا مخالف شخص گالیاں دینا شروع کردے۔ اب ہم نے لندن میں بھی گالم گلوچ شروع کردیا ہے۔ اس حوالے سے نواز شریف اور سابق چیف جسٹس کی مثال دی جاسکتی ہے جن کو لندن میں سرعام ننگی گالیاں دی جارہی ہیں۔