Zindagi Jad o Jehad Ka Naam Hai
زندگی جد و جہد کانام ہے

وَأَنُ لَيُسَ لِلُإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَىٰ
اور یہ کہ انسان کے لیے کچھ نہیں ہے مگر وہی جس کی اس نے کوشش کی۔
یہ آیت ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ انسان کو اپنی زندگی میں وہی کچھ حاصل ہوگا جس کے لیے وہ خود محنت اور کوشش کرے گا۔ کسی دوسرے کی نیکی یا عمل صرف تب فائدہ دے گا جب اس کی کوشش، نیت اور تعلق اس میں شامل ہو۔ یہ عدل کا کامل اصول ہے کہ ہر انسان کا اجر اس کی اپنی سعی کے مطابق ہے۔
اللہ نے ارتقاء زندگی کی تمام۔ منزلوں کی شرط جد و جہد پر فوکس رکھی ہے بغیر جد و جہد اور کوشش کے کوئی چیز خود بخود انسان کو حاصل نہیں ہوتی انسانی کامیابی کا انحصار ہی کوشش پر محیط ہے بغیر کوشش کے کامیابی اور آگے بڑھنے کا عمل کسی طرح ممکن نہیں۔
ہم اپنے ارد گرد کا جائزہ لیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہر وہ انسان جو آج بڑے عہدوں پر براجمان ہے وہ اسکی انتھک محنت کی بدولت کا ثمر ہے ہمیں ایسے بہت سارے واقعات پڑھنے کو ملتے ہیں بلکہ ہمارے لئے یہ واقات مشعل راہ کی حثیت رکھتے ہیں کہ انہوں نے کس طرح جد وجہد کرکے اپنی مشکل زندگی کو سہل بنایا اور کامیابی کے جھنڈے گاڈے ہم یہ قصے کہانیاں ضرور سنتے ہیں اور پڑھتے ہیں مگر عمل نہیں کرتے بس سارا دارو مدار قسمت مقدر پر ڈال کر بری از زمہ ہوجاتے ہیں جو کہ ہماری بہت بڑی حماقت ہے۔
ایک مشہور سائنسدان کا قصہ شہرت ہم سب نے سنا ہے پڑھا ہے وہ بچہ جب چھوٹا تھا یعنی سکول کے زمانے میں اسکو اسلئے نکال دیا گیا کہ وہ نالائق ہے کند ذہن ہے اس بچے کے ہاتھ سکول پرنسپل ایک چھٹی تھما دیتے ہیں کہ یہ چھٹی اپنی والدہ کو دیں بچے کی۔ ماں کے پاس چھٹی پہنچ جاتی ہے وہ اس سے پڑھتی ہےاور روتی ہے بچہ پوچھتا ہے کہ ماں اس میں کیا لکھا ہے ماں اصل بات کو پس پردہ ڈال کر بچے کو کہتی ہے بیٹا تمہارے پرنسپل نے کہا ہے کہ تمہارا بچہ بہت زہین ہے ہمارا سکول اسکا متحمل نہیں کہ آپکے بچے کو یہاں رکھ سکے لہُزا اسکو کسی بڑے سکول میں داخل کروا دیں یا گھر میں اسکو پڑھائیں۔
المختصر بچے کی ماں اسکو گھر میں پڑھانا شروع کرتی ہے اور اسطرح بچہ کامیابیوں کی تمام منزلیں طے کرتے ہوئے ایک دن بہت بڑا سائنسدان بن جاتا ہے اسکی ماں دنیا کوچ کر جاتی ہے ایک دن گھر کی صفائی کے دوران اسکو وہی خط ملتا ہے وہ اس سے پڑھنا شروع کر دیتا ہے، خط میں لکھا ہے آپکا بچہ کند ذہن ہے بہت نالائق ہے اسکو ہم اپنے سکول میں نہیں رکھ سکتے لہُزا کل سے اپنے بچے کو سکول نہ بھجیں وہ کامیاب شخص ایک آہ بھر لیتا ہے اور کہتا ہے کہ میری ماں کتنی عظیم تھی جس نے ایک کند ذہن نالائق بچے کو ایک اعلُی اور معتبر انسان بنایا اور کہتا ہے پرنسپل صاحب میں آپکی نظر میں نالائق ضرور تھا آج میری ماں نے مجھے اس لائق بنایا آج میں دنیا کا بہترین سائینسدان ہوں۔ ثابت ہوتا ہے کہ انسانی جد و جہد نالائق سے لائق بناتی ہے اور بام عروج کو پہنچاتی ہے۔ اس لئے کامیاب زندگی کے لئے کامیاب اور بہترین مستقبل کے لئے جد وجہد سے نہ گھبرائیں بلکہ اسکو اپنا کر دنیا والوں کے لئے ایک مثال بن جائیں۔
زندگی جہد مسلسل، اک امتحان، خار دار جھاڑیوں کے ایک ایسے گھنے جنگل کی مانند ہے جہاں ہر موڑ پہ آپ کے لئے اک پہیلی ہے جیسے آپ نے خود سلجھانا ہے۔ فرض کریں آپ سمندر کے ایک کنارے پہ کھڑے ہیں اور آپ کو دوسرے کنارے پہ پہنچنا ہے۔ آپ کنارے پہ کھڑے رہ کر سمندر کی وسعت کو نہیں مانپ سکتے۔ اسے عبور کرنے کے لئے آپ کو اسی پانی میں سے اپنے لئے رستہ خود تلاش کرنا ہوگا اور یہ تب ہی ممکن ہے جب آپ اس گہرائی میں اتر کر اسے پار کر سکیں۔
زندگی بھی سمندر کی مانند ہے۔ جہاں ہر روز اک نئے امتحان، مشکلات و مصائب کا سامنا ہوتا ہے۔ بعض اوقات ہم نہ جانے کتنی بار گرتے ہیں پھر ہم اک نئے عزم و حوصلے کے ساتھ اٹھتے ہیں اور ان مصائب کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر آپ خوف زدہ ہو رہے ہیں ان رکاوٹوں و مشکلات سے، تو اس کا مطلب ہے آپ نے شکست تسلیم کر لی، آپ نے کوشش کئے بغیر ہی ہار مان لی۔
آپ نے کبھی مشاہدہ کیا ہے کسی چیونٹی کا، جب وہ اناج کا دانہ اٹھا کر ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتی ہے۔ اناج کا دانہ اس سے کافی بڑا ہے مگر وہ پھر بھی اسے اٹھانے کی کوشش کرتی ہے اور آخر کار اسی کوشش کی وجہ سے وہ اپنی منزل پہ پہنچ جاتی ہے۔ اسی طرح اللہ نے ہر کسی کی قسمت میں رزق لکھا ہے اور ہر ذی روح سے رزق کا وعدہ بھی کیا ہے۔ مگر نوالے بنا کر کسی کے منہ میں نہیں دئے۔ اس رزق کو حاصل کرنے کے لئے ہمیں کوشش کرنی پڑتی ہے۔
حرکت میں برکت ہے۔
اگر ہم کوشش نہیں کریں گے ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر اللہ کے کُن کے منتظر رہیں گے تو جان لیں ہم زندگی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ جائیں گے۔ آج ہمارا المیہ یہ ہے ہم مستقل کوشش نہیں کرتے محنت کئے بنا ہی ہمت ہار جاتے ہیں اور سارا ملبہ وقت و حالات پہ ڈال کر خود بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔ زندگی کے ارتقاء سے لے کر آج تک انسان نے جتنی بھی منازل طے کی ہیں اس کا دار و مدار کوشش پر ہی ہے۔ مایوسی آدھی موت ہے۔ تو سوچیں کوشش کے بغیر آپ کی زندگی کیسی ہوگی؟
انسان کی سوچیں بھی جب زنگ آلود ہو جاتی ہیں، اپنے راستوں کو تلاش کرنے کے بجائے وہ اللہ کی رحمت سے مایوس ہو جاتا ہے۔ اللہ کی رحمت سے مایوس ہو جانا گناہ کبیرہ ہے۔ ایک ہی جگہ خود کو مت روکیں اگر آپ نے بیٹھنا سیکھ لیا ہے تو کوشش کریں چلنا شروع کر دیں، اگر چلنا سیکھ لیا ہے تو دوڑنا شروع کر دیں۔ اگر آپ نے دوڑنا سیکھ لیا ہے تو آپ اڑنا شروع کر دیں۔ کوشش ترک نہیں کریں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے، وَ الَّذِیُنَ جَاهَدُوُا فِیُنَا لَنَهُدِیَنَّهُمُ سُبُلَنَاؕ-
ترجَمۂ: "اور جنہوں نے ہماری راہ میں کوشش کی ضرور ہم انہیں اپنے راستے دکھا دیں گے"۔ یعنی اللہ بھی اپنے بندوں سے اس بات کا عہد کر رہا ہے کہ میں کوشش کرنے والوں کے ساتھ ہوں تم قدم بڑھاؤ راستہ خود بخود ملتا جائے گا۔ اگر آپ کی زندگی میں ہر طرف اندھیرا ہے آپ کو کچھ سجھائی نہیں دے رہا اگر آپ مسلسل کو شش کریں تو اس اندھیرے میں روشنی کی ننھی سی کرن کہیں نہ کہیں سے پھوٹ پڑے گی۔ اگر سارے رستے بند ہو جائیں تو ایک رستہ ہمیشہ کھلا رہتا ہے اور وہی رستہ ہمیں ہماری منزل تک پہنچاتا ہے۔ مگر اس رستے کو تلاش ہم خود کرنی ہوتی ہے۔

