Ye Rangeeniyan Kahi Ka Nahi Choren Gi
یہ رنگینیاں کہیں کا نہیں چھوڑیں گی

یہ جو ہاتھوں میں جگمگاتا موبائل فون یہ صرف ایک آلہ نہیں یہ ایک پوری تہذیب کا نیا چہرہ ہے۔ بظاہر سہولت اندر سے پوری شیطانی لعنت جب سکرین پر انگلی پھسلتی ہے تو صرف ایپس نہیں کھلتیں شیطانی یلغار کے دروازے بھی کھلتے ہیں اور ان دروازوں کے پار اکثر کوئی استاد نہیں، کوئی رہبر نہیں ایک بھیڑیا چھپا ہوتا ہے جو مسکرا کر چیرنے کا فن جانتا ہے۔ ہماری بیٹیاں، جن کے ماتھے پر صدیوں سے شرم و حیا کا پیکر تھیں اب انسٹاگرام کے فلٹر سے اپنی پہچان بناتی ہیں ہماری ماؤں نے جو غیرت کی چادر سنبھال کر انہیں دی تھی وہ چادر اب ریئل ٹائم چیٹ میں کھل کر بکھرتی ہے اور والدین؟ کچھ فخر سے کہتے ہیں میری بیٹی بہت ماڈرن ہوگئی ہے ماڈرن؟
تعلیم کے نام پر ٹیکنالوجی کے بہانے ایک ہنی ٹریپ کی سلگتی آگ ہے جس میں روز نئی معصومیت جھونکی جاتی ہے۔ دشمن اب بارڈر پار نہیں کرتا۔ اب وہ "ہیلو" سے بات شروع کرتا ہے۔ وہ بھائی بن کر آتا ہے، مشورہ دے کر دل جیتتا ہے، پھر تصویر مانگتا ہے پھر ویڈیو، پھر اعتماد پھر اسکے بعد انہونی بربادی تماشہ جو آئے روز ہم اسی سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم پر دیکھتے ہیں اوپر بیان کی گئی کہانی یہ سب کچھ ایک اسکرین پر ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا؟
جی ہاں، وہی فیس بک، وہی ٹک ٹاک وہی نام نہاد فالوورز کا بازار جہاں عزت کا سودا لائک کے بدلے ہوتا ہے۔ گلگت بلتستان کے لوگوں کا دل بڑا ہے مگر یہی دل جب سادگی اور بھروسے سے لبریز ہو، تو آسان شکار بن جاتا ہے۔ ہمارے نوجوان وفادار تو ہیں مگر سادہ لوح۔ وہ دشمن کو اس کے اصل چہرے میں نہیں پہچانتے۔ جب دشمن کی توپیں خاموش ہوں، تو سمجھو وہ دلوں پر حملہ کرنے آیا ہے جب وہ فحاشی کو تفریح کا نام دے، تو جان لو کہ وہ تمہارے کردار کا قلعہ گرا چکا ہے اب بندوق کی گولیاں نہیں چل رہیں اب نظریات کے بم گر رہے ہیں ہر موبائل ایک میدانِ جنگ ہے۔
جہاں ایک طرف علم کی روشنی ہے، تو دوسری طرف جہالت کا اندھیرا اور شیطانی دلفریب مناظر تمہاری بیٹی اگر چیٹ ایپ پر مسکرا رہی ہے، تو جان لو کوئی درندہ اُس ہنسی کی قیمت لگا رہا ہے یہ تحفہ جو کبھی ٹیبلٹ کبھی موبائل کبھی لیپ ٹاپ کی شکل میں دیا جاتا ہے یہ اگر شعور کے ساتھ نہ دیا جائے تو زہر کا پیالہ ہے اور جب دشمن تمہارے ہی ہاتھوں سے تمہاری بیٹی کو تباہ کر دے تو وہ گولی نہیں چلاتا وہ صرف کلک کرتا ہے۔ یہ جنگ، صاحبو، اب دلوں کی جنگ ہے اب دشمن تمہارے بیڈروم میں ہے، تمہارے انٹرنیٹ کنکشن پر، تمہارے بچوں کی انگلیوں کی پور پر۔۔
اب اسے گولی مارنے سے نہیں شعور سے مارا جا سکتا ہے پس فیصلہ تمہیں کرنا ہے یہ موبائل علم کا دروازہ ہے یا فحاشی کا گیٹ وے یہ ڈیجیٹل دنیا تمہاری ترقی ہے یا تمہاری غلامی؟ وقت ہے سوچنے کا ورنہ اگلی نسل ایک ایسی زنجیر میں ہوگی جس کے تالے پر تمہارے ہی انگوٹھے کا نشان ہوگا۔

