Ye Ghulami Akhir Kab Tak
یہ غلامی آخر کب تک
پیٹرول کی قیمتیں آسمانوں کو چھو رہی ہیں۔ کہیں سے کسی طرح غریب عوام کو سکھ کا چین نہیں دیکھنے میں آرہا ہے۔ جو سرکار بلند بانگ دعوے کر کے آئی تھی ہمیں اقتدار ملا تو ملک کی تقدیر بدل دیں گے ایسا کریں ویسا کریں گے ملک تباہے کے داہنے کی طرف جارہا ہے عوام کی کھال اتر چکی ہے۔ مگر سرکار لطیفے اور شگوفے سے جگہ ہسائی اور تماشہ بن چکی ہے۔
تمام اہل وطن کو آگاہ کیا جاتا ہے کہ چائے کا ایک کپ پئیں اور ایک روٹی کے چار ٹکڑے کر کے گزارہ کریں، ہم سب کا مرشد آقا بزرگ شیطان بہت ناراض ہے۔ جب تک یہ راضی نہیں ہوتا تب تلک کوشش کریں پیٹ پر پتھر باندھ لیں اپنی عزت نفس کو کسی خاطر میں نہ لائیں فُل بیغیرت بن جائیں اور اپنے امپورٹ شدہ بندر کی اچھل کود سے معزوز ہو کر اپنے فاقے اور پریشانیاں بھول جائیں۔
اور ڈڈو چارجر نے جو دو ہزار روپے کا اعلان کیا ہے۔ وہ لیکر باہر ملک کی سیر کو نکل جائیں اپنے زہن کو فرش کریں بلکہ بہتر ہے، ایک اچھا گھر خریدیں اور وہی رہائش پزیر ہو جائیں اور ساتھ ان لوگوں کو دعائیں دیں بلکہ کوشش کریں اس دو ہزار سے میاں صاحب کے برابر میں ایک فلیٹ خرید لیں تاکہ روز اسکی زیارت بھی ہو جائے گی اور دل کو سکون بھی مل جائے گا۔
حکومتی اس اقدام یعنی اتنی بڑی رقم فراہم کرنے پر ضررور انکا شکریہ ادا کریں کہ اس نازک مرحلے میں اتنی بڑی رقم دے کر آپکی تمام پریشانیاں دور کیں، ایسے درویش لوگ ہمیں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملیں گے ایسے لوگوں کی قدر کریں۔ پیٹرول کا بم اور غریب کی آہ آسمانوں کو چھو رہی ہیں عرش والا بھی اس منظر سے پوری طرح با خبر ہے۔ فرشتے بھی زمین پر آنے کی خواہش ظاہر کر رہے ہیں۔
تاکہ ہماری اس خوشی میں شامل حال ہو جائیں کیا لکھوں میرے اپنی دل کی حالت کچھ ایسی ہے کہ رو لوں ہنسؤں یا ماتم کروں ان کم ظرفوں کی کم ظرفیوں پر جو شیشے کے محلوں میں رہ کر اپنی مفادات کی خاطر اپنے اقتدار کی خاطر کسی کافر کے حکم پر مسلمانوں کی مال عزت آبرو کو داؤ پر لگا رہے ہیں۔ غریبوں کا جینا محال کیا ہے، انکے لئے روز نئی مشکلات میں اضافہ کر کے سکون تباہ کر رہے ہیں۔
ان کم ظرفوں کی خواہش ہے کہ سب مر جائیں بکھر جائیں کوئی بچے یا نہ بچے بس انکا آقا شیطان بزرگ خوش رہے اور یہ کم ظرف بد بخت اسکی خوشی میں خوش رہیں۔ اس شیطان بزرگ کی اطاعت میں میرے دیس کے ایمان سے خالی غیرت سے عاری بیغرتی میں سب سے آگے کھوکھلے حکمران سب کچھ داؤ پر لگا کر شام کو اپنے اپنے گھروں میں قہقہے مار رہے ہیں۔
چلو آج ہم نے اسکے حکم کی بجا آوری کی یقینأ وہ اب ہم سے ضرور خوش ہوگا اے حرام خور اور غیر متزلزل ایمان والے بے شرمو کچھ تو شرم کرو۔ بندر کرائم مینسٹر کچھ دن پہلے کہہ رہا تھا، اگر ہم نے اس بزرگ شیطان کی بات نہ مانی تو ہم بھوکے مر جائیں گے، ہمیں انکی بات ماننا ہو گی عمران خان نے ابسیلیوٹلی ناٹ کہ کر بڑی غلطی کی ہم ایسا نہیں کرسکتے توبہ استغفراللہ یہ امریکی غلام انکی غلامی میں رب کی زات خالق کائنات تک کو بھول گئے ہیں۔
رازق اللہ کی زات ہے وہی سبکو رزق دیتا ہے اور اسی نے جب تک زندہ ہیں رزق کا وعدہ کیا ہے تو کیوں ایک حقیر غیر مسلم کے خوف سے ہم گمراہی مراحل کی طرف گامزن ہیں۔ سچ کہتے ہیں حرام رزق انسان کو بزدل بناتا ہے اور غیرت ختم کرتا ہے یہ سب کچھ حرام رزق کا اثر ہے ورنہ ایک مسلمان ایسا سوچ بھی نہیں سکتا کہ اللہ کو چھوڑ کر ایک غیر مسلم کے آگے جھکے یہ مسلمان کی توہین ہے اور ایک کلمہ گو کیلئے ڈوب مرنے کا مقام ہے۔
جب ہماری سوچ یہ ہے تو کس منہ سے کہیں گے ہم مسلمان ہیں۔ ہم ایک نبی اور ایک اللہ کی حاکمیت پر یقین رکھتے ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کیطرح ہماری عوام بھی بزدل ہے، ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں اور عوام مطمئن ہو کر بیٹھی ہے کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں آخر ایسا کیوں ہے؟ جو قومیں اپنے حقوق کیلئے کھڑی نہیں ہوتیں وہ ہمیشہ زلیل و خوار ہوتی ہیں اور وہ کبھی کامیابی کی منزلیں طے نہیں کرسکتیں۔
نیز ایسی قومیں ہمیشہ غلامی کے دلدل میں رگڑی جاتی ہیں۔ اب وقت خاموشی کا نہیں بولنے کا ہے اپنے حقوق کی بات کرنے کا ہے، اپنے حقوق لینے کا ہے، اپنے حق کیلئے لڑنے کا ہے، اس بڑھتے ظلم میں خاموشی ایک عزاب ہے۔ جو تمہاری خاموشی سے تم پر مسلط ہے۔ اگر ڈھنگ سے جینا ہے تو غلامی کی زنجیر توڑنی ہو گی بے شرم حکمرانوں سے نجات حاصل کرنا ہوگی۔
نہیں تو تاریخ میں ایک بے حس غلام قوم کے نام سے لوگ ہمیں یاد کریں گے، یہی ہماری تاریخ ہوگی جو ہماری آنے والی نسل کیلئے ایک بہت بڑی گالی سے کم نہیں۔ ہمیں اپنے آپکو بدلنا ہوگا، آخر یہ غلامی کب تک؟