Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shair Khan
  4. Yasmeen Rashid Istiqamat Ki Alamat

Yasmeen Rashid Istiqamat Ki Alamat

یاسمین راشد استقامت کی علامت

جب سچ بولنا جرم بن جائے تو سمجھ لیجیے کہ ظالموں کا اقتدار اپنے آخری پڑاؤ پر ہے۔ سیاست کبھی قوموں کی رہنمائی کا وسیلہ ہوا کرتی تھی۔ مگر اب پاکستان میں سیاست نہیں، انتقام کی منڈی لگی ہوئی ہے۔ یہاں نظریے نہیں بیچے جاتے، یہاں صرف ضمیر کی بولی لگتی ہے۔ ذاتی رنجشوں میں پلنے والی یہ سیاست ذاتیات کے دلدل میں اتر چکی ہے، جہاں مخالف کو ختم کرنا سب سے بڑی کامیابی سمجھی جاتی ہے۔ اسی انتقامی سیاست کا تازہ ترین شکار ڈاکٹر یاسمین راشد ہیں ایک معالج ایک استاد، ایک ماں اور سب سے بڑھ کر ایک باہمت عورت۔ کینسر جیسی بیماری سے نبرد آزما یہ بزرگ خاتون ڈھائی سال سے قید ہیں۔

ان کا جرم کیا ہے؟ صرف یہ کہ انہوں نے مقدس خاندان کے چشم و چراغوں کے اصل چہرے سے پردہ اٹھایا۔ انہوں نے بتایا کہ کس طرح مریم نواز نے کالج میں بغیر میرٹ کے داخلہ لیا اور جب ایک پرنسپل نے اصولوں پر قائم رہنے کی جسارت کی، تو باپ نے حکم دیا اسے نکال دو۔ یہ واقعہ کوئی سیاسی قصہ نہیں بلکہ اس ملک کے اس بگڑے ضمیر کا آئینہ ہے جو طاقت کے سامنے سچ بولنے سے ڈرتا ہے۔ یاسمین راشد کی قید دراصل ایک خوفناک علامت ہے کہ یہاں عورت کے احترام کے دعوے صرف تقریروں تک محدود ہیں یہ وہی معاشرہ ہے جہاں چادر اور چار دیواری کے تقدس پر لیکچر دیے جاتے ہیں، مگر بزرگ خواتین کو ہتھکڑیاں لگا کر عدالتوں میں گھسیٹا جاتا ہے جہاں عورت کی عزت کا راگ الاپا جاتا ہے، مگر ماں کی عمر کی عورت کے علاج پر خاموشی چھا جاتی ہےاور عدالتیں؟

عدالتیں اب انصاف کی منازل نہیں، طاقت کے طوق ہیں یہ وہ عدالتیں ہیں جو کمزور کی فریاد پر ریمارکس دیتی ہیں، مگر طاقتور کے اشارے پر فیصلے لکھتی ہیں۔ انصاف اب کتابوں میں نہیں، دروازوں کے پیچھے ہونے والی ملاقاتوں میں ملتا ہے ڈاکٹر یاسمین راشد کی خاموشی آج اس معاشرے کے ماتھے پر ایک طمانچہ ہے وہ نہیں بولتیں، مگر ان کی خاموشی چیخ بن کر سنائی دیتی ہے ان سب کو جو ظلم دیکھ کر بھی آنکھیں بند کر لیتے ہیں آج اگر ہم اس بے حسی پر خاموش رہے تو کل ہماری مائیں ہماری بہنیں، ہماری بیٹیاں بھی اسی قید کی زنجیروں میں ہوں گی یہ صرف ایک عورت کی جدوجہد نہیں یہ انصاف کی لاش پر بیٹھے ضمیر کی پکار ہےاور یاد رکھئے قومیں اپنے سچ بولنے والوں کو قید کرکے کبھی آزاد نہیں ہوتیں۔

یاسمین راشد کے کیس میں صرف ایک عورت قید نہیں، دراصل ضمیر قید ہے، شرافت قید ہے، سچائی قید ہے جب قومیں اپنے سچ بولنے والوں کو سزا دیتی ہیں تو پھر ان کے نصیب میں غلامی لکھ دی جاتی ہیں۔ یہ ملک اب سیاست نہیں نفرت کا تھیٹر بن چکا ہے۔ یہاں کردار نہیں بدلے جاتے صرف اسٹیج بدلتا ہے۔ مگر ایک دن آئے گا جب یاسمین راشد کی خاموشی بولے گی اور دربار کے سب نعروں سے زیادہ گونجے گی وہ دن انصاف کا دن ہوگا جب سچ ایک بار پھر عدالت کی میز پر بیٹھے گا اور جھوٹ کٹہرے میں کھڑا ہوگا۔

یاسمین راشد ایک ایسی باہمت خاتون ہیں جنہوں نے سیاست کو ذاتی مفاد نہیں بلکہ خدمت کا وسیلہ بنایا۔ کینسر جیسی موذی بیماری کے باوجود اُن کی استقامت، جرأت اور وفا مثالی ہے۔ قید و بند کی صعوبتیں سہہ کر بھی وہ اپنے نظریے سے پیچھے نہیں ہٹیں۔ آج اُن کا کردار اس نظامِ انتقام پر سوالیہ نشان ہے جہاں طاقتور عورت کے حق میں اور باکردار عورت کے خلاف کھڑا ہے۔ جو لوگ کل عورت کی عزت کے نعرے لگاتے تھے، آج اُن کی زبانیں خاموش کیوں ہیں؟ اقتدار کی کرسی پر بیٹھتے ہی اصول کیوں بدل جاتے ہیں؟ شاید اسی لیے کہا گیا ہے کہ "اصول نہیں، مفاد ہی ہماری سیاست کا اصل چہرہ ہے۔ یاسمین راشد واقعی اس دورِ منافقت میں وفا اور حوصلے کی زندہ مثال ہیں۔

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali