Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shair Khan
  4. Wo Ghairat Mand Thi

Wo Ghairat Mand Thi

وہ غیرت مند تھی

کیا ہی دل دہلا دینے والا منظر ہے اور کیا ہی عظیم ہے وہ ماں، وہ بہن، وہ بیٹی جو ظاہری طور پر تو کمزور نظر آتی ہے، مگر اصل میں وہی سب سے بہادر ہوتی ہے کہتے ہیں وہ لڑکی مار دی گئی۔ کہتے ہیں غیرت کے نام پر قتل کیا گیا کہتے ہیں وہ گناہ گار تھی، اس نے مرضی سے محبت کی تھی۔ مگر میں کہتا ہوں، تم سب جھوٹے ہو تم قاتل تھے، وہ شہید تھی بہادر تو وہ لڑکی تھی، جس نے موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں جس کے سامنے بندوق تھی، مگر وہ نہ کانپی نہ پیچھے ہٹی بلکہ تم جیسے وحشی مردوں کے سامنے سینہ تان کر کھڑی ہوئی اور تمہیں بےنقاب کر گئی۔

اس کی نظر میں زندگی اہم تھی، مگر حق اس سے بڑھ کر اس نے لمبی داڑھیوں، اونچی شلواروں اور غیرت کے علمبردار درندوں کو بتا دیا کہ غیرت گولی چلانے میں نہیں، برداشت کرنے میں ہے۔ تم نے بندوق چلائی، وہ سر اٹھا کر مری تم نے موبائل نکالا اور موت کا منظر فخر سے فلمایا مگر تاریخ یہ لکھے گی کہ تم بےغیرت تھے، وہ غیرت مند تھی۔

تم قرآن کے وارث کہلاتے ہو، مگر قرآن کے حکم بھول گئے کہ زبردستی نکاح نہیں ہوتا عورت کو زندہ دفن کرنا زمانۂ جاہلیت تھا مگر تم وہی رسم آج گولی سے بلوچستان میں دہراتے رہے وہ جب اپنے ربّ کے حضور پیش ہوگی، تو کہے گی اے میرے اللہ! تُو نے مجھے حق دیا تھا محبت کا نکاح کا، جینے کا اور میں نے وہ حق مانگا تو تیرے ہی بندوں نے مجھے قتل کر دیا۔ جانتے ہو اس وقت زمین نے کیا دیکھا؟

زمین نے دیکھا کہ بندوق مرد کے ہاتھ میں تھی مگر بہادری عورت کے دل میں تھی تم نے قتل کیا مگر خود کو زندہ دفن کر دیا اور تم جو ویڈیو بناتے رہے، جو تماشائی بنے رہے، تمہاری خاموشی سب سے زیادہ چیخی تمہارا موبائل گواہ ہے کہ تم ظالموں کے ساتھ تھے اور وہ اللہ والوں میں شمار ہوئی یہ تحریر بس مذمت نہیں یہ ماتم ہے اس معاشرے کا جہاں انصاف گولی سے نکلتا ہے اور غیرت داڑھی سے تولی جاتی ہے یاد رکھو تم نے ایک لڑکی کو مارا مگر تم نے غیرت کے چہرے کو بھی خون میں لت پت کر دیا اس لڑکی نے کہا مجھے ہاتھ مت لگانا بس گولی مارنا یہ کوئی مکالمہ نہیں، بلکہ ہمارے معاشرے کی ننگی وحشت کا چاک چہرہ ہے اور وہ چہرہ بلوچستان کے سخت پہاڑوں میں سے ابھرا ہے، جہاں روایت کے نام پر جہالت نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔

جی ہاں! بلوچستان جہاں وفاداری، غیرت، مہمان نوازی اور عزت کا ذکر کرتے ہوئے ہم سینہ چوڑا کر لیتے ہیں۔ مگر اسی بلوچستان کی ایک بیٹی کو محض اس لیے موت کی نیند سلا دیا گیا کیونکہ اس نے محبت کی، پسند سے نکاح کا خواب دیکھا یعنی وہ گناہ کر بیٹھی جو ابوجہل کے دستور میں "ناقابلِ معافی" مانا جاتا ہے۔ بلوچ غیرت مند ہیں یہ جملہ ہم برسوں سے سنتے آ رہے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ غیرت مند کون؟ وہ جو بہن کو محبت کی سزا دے؟ یا وہ جو بندوق کے دہانے سے ناموس کی رکھوالی کرے؟ یہ غیرت نہیں، یہ بے غیرتی کی انتہا ہے۔ یہ ابو جہل کی سوچ ہے جو آج کے لباس، جدید اسلحے اور سوشل میڈیا پوسٹس میں زندہ ہے۔

اس واقعے نے بلوچستان کی ثقافت پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ یہ پہاڑوں کی عظمت کا سوال نہیں، یہ انسانیت کی بقا کا سوال ہے۔ یہ عورت کی حرمت، اس کے جینے کے حق، اس کے خواب، اس کی مرضی ہر شے پر حملہ ہے۔ سچ پوچھیں تو اس گولی نے صرف ایک بیٹی کو نہیں مارا، اس نے بلوچ روایت، بلوچی عزت اور بلوچی مردانگی کو بھی زمین بوس کیا ہے۔ یہ قتل صرف ایک فرد کا نہیں، ایک سماجی نظریے کا قتل ہے، جو شاید مرنا چاہتا بھی نہیں۔

جب تک ہم عورت کی ذات کو مالِ غنیمت سمجھنا بند نہیں کریں گے جب تک قبائلی جرگے قرآن و آئین سے بالاتر سمجھے جاتے رہیں گے، تب تک یہ گولیاں چلتی رہیں گی اور ہم خاموشی سے اخبار کا صفحہ پلٹتے رہیں گے۔ یاد رکھیں کل آپ کی بیٹی بھی محبت کر سکتی ہے اور اگر ہم آج خاموش رہے، تو کل آپ کے گھر میں بھی صرف گولی سے مارنے کی اجازت ہوگی۔ لہذا اسکو روکنا ہوگا نہیں تو ہم سب اللہ کے ہاں مجرموں کی طرح پیش کئے جائینگے۔

Check Also

Bani Pti Banam Field Marshal

By Najam Wali Khan