Waiz Ka Waaz, Kirdar Ka Janaza
واعظ کا وعظ، کردار کا جنازہ

آج ہمارے معاشرے میں ایک ایسا جنازہ روز نکلتا ہے جس پر کوئی آنکھ اشکبار نہیں ہوتی نہ کوئی ماتم کرتا ہے نہ کوئی جنازہ پڑھتا ہے یہ جنازہ کسی انسان کا نہیں یہ کردار کا جنازہ ہے۔ وہ کردارجو کبھی سچ بولنے کی ہمت رکھتا تھا جو کبھی نیت کا خالص تھا جو کبھی عمل سے روشنی دیتا تھا اب وہ مر چکا ہے اور اس کی قبر پر کھڑے ہو کر واعظ تقریر کرتے ہیں ایسی تقریر، جس کا بدن لفظوں سے ملبوس ہوتا ہے اور روح تاثیروں سے عاری۔
وہ بولتے ہیں، سمجھاتے ہیں، دہراتے ہیں مگر خود اپنے جملوں پر عمل نہیں کرتے یہ واعظ نہیں زندہ لاشیں ہیں جو کردار کی لاش پر تقریر کا گلدستہ رکھ کر آگے بڑھ جاتی ہیں۔ کہاں گئے وہ لوگ جن کی خاموشی بھی ہدایت تھی آج تو گھنٹوں بولنے والوں کی بھی تاثیر ندارد آج منبر ایک اداکاری کا اسٹیج ہے، جہاں وعظ بھی ریہرسل شدہ ہوتا ہے اور نیت اسکرپٹ سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں دیتی۔ وہ مذہبی رہنما جو زہد کا سبق دیتا ہے وہ خود سوشل میڈیا پر شہرت کا طالب ہوتا ہے وہ موٹیویشنل اسپیکر جو صبر کی بات کرتا ہے خود پانچ منٹ دیر سے آنے پر غصے سے کانپتا ہے ہم ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں تقریر نے کردار کو قتل کر دیا ہے جہاں ہر شخص سمجھانے کی دوڑ میں ہے، مگر خود سے شرمندہ نہیں۔
تبلیغ اب ایک پیشہ ہے۔ تبلیغی ٹور، تبلیغی سیلفی، تبلیغی کانٹینٹ۔ اخلاص کہیں کوڑے دان میں ہے اور ایڈیٹنگ سافٹ ویئرز میں تاثیر ڈھونڈی جا رہی ہے اُف! کیا وقت آ گیا ہے جہاں اللہ کا نام سن کر لوگ متاثر نہیں ہوتے کیونکہ بولنے والا اللہ سے متاثر نہیں لگتا ایسا لگتا ہے جیسے کردار دفن ہو چکا ہےاور اس کی قبر پر تقریریں ہو رہی ہیں پرنم آوازوں میں، جذباتی لہجوں میں، مگر خشک دلوں کے ساتھ۔ بغیر کردار کے ساتھ ہمیں اب خطیب نہیں، کردار والے لوگ چاہیے۔ ایسے لوگ جنہیں دیکھ کر ہدایت خود قدموں میں آ بیٹھے۔ جن کے سچ بولنے کے بعد الفاظ کی ضرورت ہی نہ رہے جن کا جینا وعظ بن جائے اور مرنا درس تب تک، ہم روز اسی کردار کے جنازے میں شریک ہوتے رہیں گے خاموش بے حس اور شاید اپنے اندر کے کردار کو بھی اسی قبر میں دفن کرتے ہوئے۔
یہ وہ لوگ ہیں جن کے الفاظ میں سمندر کی گرج ہے مگر کردار میں نالی کا سناٹا۔ جو اپنے لہجے سے حاضرین کے دل دھڑکاتے ہیں مگر اپنے باطن کی ویرانی سے بے خبر رہتے ہیں یہ دور خطابت زدہ دھوکہ ہے۔ یہاں ایک گھنٹہ مائیک پر بولنا، قرآنی آیات، احادیث، شاعری، حکایات اور سوشل ریفرنسز کے امتزاج سے ایک پیکج بیچنا یہی اصل تبلیغ بن چکا ہے۔ پچاس ساٹھ ہزار روپے کی فیس، چند تصویریں، انسٹاگرام پر کلپ اور اگلے شہر کی بکنگ پکی۔
خطبہ ختم، خطیب غائب۔
وعظ مکمل، واعظ کا کردار مردہ۔
تقریر جاری، تاثیر معدوم۔
اور ہم سامعین؟ واہ واہ کے شور میں اپنی بربادی کا جشن مناتے ہوئے یہ وہ دور ہے جہاں "ممبر" ایک پروڈکشن اسٹیج ہے دینی درسگاہ ایک یوٹیوب چینل کا بیک آپ آفس اور تبلیغ ایک اسپانسرڈ ٹور از ترکی، ملائیشیا یا یورپ۔ کسی نے سچ کہا تھا جب واعظ خود بدکردار ہو تو اس کا وعظ غیر موثر زہر بن جاتا ہے نہ وہ کسی کو جگاتا ہے، نہ خود بیدار ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہدایت کا دروازہ بند سا لگتا ہے اور تقریروں کا شور ایک مایوس کن بازگشت بن چکا ہے۔ یہاں ہر دوسرا شخص نصیحت کر رہا ہے اور ہر تیسرا خود نصیحت سے خالی ہے آج ہم نے تبلیغ کو روٹی کا وسیلہ بنا دیا ہے۔
کسی مملکت کے ویزے پر دعوتی سفر کے نام پر جائیں، دو چار وی لاگ بنائیں، "تبلیغ" کے نام پر لوگوں سے ملاقاتیں کریں اور سال بھر کی روزی پکی مگر کوئی بتائے کیا نیت کا رزق بھی ڈالرز میں ناپا جاتا ہے کیا اخلاص بھی کسی اسپانسرڈ کانفرنس میں پیدا ہوتا ہے؟
کیا کردار کی خوشبو بھی انسٹاگرام فلٹر سے نکلتی ہے نہیں جناب، ہرگز نہیں یہ وقت سننے کا نہیں، دیکھنے کا ہے اب سوال یہ نہیں کہ کون کیا کہتا ہے، سوال یہ ہے کہ کون کیسا جیتا ہے ہمیں لفظوں کے جادو سے نکل کر کردار کی حقیقت میں جینا سیکھنا ہوگا، ورنہ ہم ان واعظوں کے قبرستان میں دفن ہو جائیں گے جو خود حقیقی زندگی سے محروم ہیں۔

