Wahdat Waqt Ki Aham Zaroorat
وحدت وقت کی اہم ضرورت

کہنے کو ہم سب مسلمان ہیں اور محرم آتے ہی سب کی زبان پر حسینؑ کا نام۔ مجالس، ماتم، علم، شبیہ، نوحے، نیاز سب کچھ ہوتا ہے اور ہونا بھی چاہیے۔ مگر سوال یہ ہے کہ یہ سب کچھ صرف محرم تک محدود کیوں ہے کیا امام حسینؑ نے قیام صرف اس لیے کیا تھا کہ ہم دس دن گریہ کریں اور پھر واپس اپنی فرقہ واریت، تعصب اور خاموش غلامی کی زندگی میں لوٹ جائیں محرم آتا ہے تو سنی، شیعہ، اسماعیلی، نوربخشی سب یکساں عقیدت کے ساتھ اپنے اپنے انداز میں خراج پیش کرتے ہیں۔ مگر جونہی کوئی شرپسند عناصر آگ بھڑکاتے ہیں، ہم سب ایک دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھنے لگتے ہیں۔ سازش کرنے والا کون ہے؟ شیعہ؟ سنی؟ یا وہ تیسرا ہاتھ، جو ہمیں ہمیشہ بانٹ کر حکمرانی کرتا رہا ہے۔
کوئی یہ سوال اٹھائے کہ ہم سب ایک کیوں نہیں؟ تو فوراً سے پہلے مسلکی فتوے جاری ہونے لگتے ہیں۔ گویا وحدت کا نعرہ لگانا ہی سب سے بڑا جرم بن گیا ہے۔ کربلا کو ہم نے مذہب بنا لیا، مگر اس کے پیغام کو فراموش کر دیا۔ امامؑ نے سر کٹایا تاکہ اسلام بچ جائے اور ہم نے اسلام کو بیچ دیا تاکہ ہماری مسلک کی دوکان بچ جائے۔ ذرا سوچیے، حسینؑ کا غم منانے والے ہی اگر آپس میں بٹے ہوں، تو یزید کو کس بات کی فکر ہوگی؟ وہ تو خوش ہوگا کہ ہم نے حسینؑ کے ماننے والوں کو حسینؑ کے نام پر ہی جدا کر دیا اور یہی ہو رہا ہے سوشل میڈیا پر زہر، مسجدوں میں نفرت، منبر پر تفرقہ اور بازار میں خاموشی۔ ہم کیوں بھول گئے کہ رسولﷺ نے فرمایا حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں کیا یہ فقط جذباتی نعرہ ہے یا ایک آئینی اعلان کہ حسینؑ کا مشن، محمدﷺ کا ہی مشن ہے؟
آج امام حسینؑ کا ذکر کرنے والے ہزاروں ہیں، مگر ان کی سیرت پر چلنے والے کتنے ہیں؟ مظلوم کے ساتھ کھڑے ہونے والے؟ باطل کے سامنے کلمۂ حق کہنے والے؟ اگر ہم واقعی حسینی ہیں تو ظلم پر خاموش کیوں ہیں؟ محرومی پر چپ کیوں ہیں؟ اور سب سے بڑھ کر، ایک دوسرے سے دور کیوں ہیں؟ ہم پانی پلانے والوں میں شامل ہوں، خندقیں کھودنے والوں میں نہیں؟ ہم سلامتی کے داعی بنیں، نفرت کے سوداگر نہیں ہم مجلسِ حسینؑ کو درسِ وحدت میں بدل دیں ہم کربلا کو فقط تاریخ نہیں، آج کا منشور مان لیں۔
کربلا فقط 61 ہجری کا قصہ نہیں، یہ ہر دور کی بصیرت ہے۔ مگر بدقسمتی یہ ہے کہ ہم نے اسے صرف اپنے مسلک کا استعارہ بنا دیا ہے، امت کا سرمایہ نہیں۔ ہم امام کے ماننے والے تو ہیں، مگر ان کی راہ کے مسافر نہیں کاش ہم سمجھیں کہ اگر آج بھی ہم نے سچ کو سچ نہ کہا، باطل کو باطل نہ پہچانا، تو ہم حسینؑ کے نہیں، یزید کے وارث شمار ہوں گے۔ ہم سب ایک ہیں ہم سب حسینی ہیں یہ نعرہ صرف بینر پر نہیں، ہمارے کردار میں نظر آنا چاہیے۔ آئیے! ہم عزاداری کو صرف آنکھوں کا پانی نہ رہنے دیں، دل کی آنچ بنا دیں۔ زبان سے نہیں، عمل سے بتائیں کہ ہم وہ قوم ہیں جو ظلم کے خلاف ہے ہر دور کے ظلم کے خلاف ورنہ یہ محرم بھی گزر جائے گا اور ہم پھر اپنے تعصبات کے ساتھ زندہ رہیں گے بےحس، بےبصیرت، بےاتحاد!
کربلا کسی فرقے کا نہیں، امت کا سرمایہ ہے امام حسینؑ نے جب "ھل من ناصرٍ ینصرنا؟" کہا، تو وہ سوال صرف کربلا کے میدان میں موجود افراد سے نہیں تھا، وہ سوال قیامت تک ہر حق پسند انسان سے تھا۔ وہ ندا ایک دعوتِ بیداری تھی، جو آج بھی زندہ ہے۔ یہ انتہائی افسوسناک ہے کہ بعض لوگوں نے امام حسینؑ کی قربانی کو فقط ایک ماتمی رسم یا مسلکی شعار تک محدود کر دیا، جبکہ امامؑ کا پیغام تو اتحاد، شعور اور ظلم کے خلاف عالمی جدوجہد کا اعلان تھا حسینی پیغام ظالم کے خلاف قیام، چاہے وہ مسلمان ہی کیوں نہ ہو کربلا ہمیں سکھاتا ہے کہ اگر حاکم ظلم پر ہے، چاہے وہ کلمہ پڑھتا ہو، نماز پڑھتا ہو اگر وہ عدل، انصاف اور حق سے ہٹا ہے تو وہ یزید ہے۔
اگر قرآن کہتا ہے: کونو قوامین بالقسط شہداء للہ" (عدل پر قائم رہو، اللہ کے لیے گواہ بنو)، تو امام حسینؑ نے اسے عملی صورت میں دکھایا اپنے اہل و عیال کی قربانی دے کر۔
کربلا فرقہ واریت سے ماورا، انسانیت کا پیغام ہے۔ ہر انسان، خواہ وہ کسی بھی مکتبِ فکر سے تعلق رکھتا ہو، اگر وہ ظالم کے خلاف ہے اور مظلوم کے ساتھ ہے، تو وہ حسینی ہے اور اگر وہ ظالم کے ساتھ ہے، تو وہ یزیدی ہے چاہے اس کے ماتھے پر نماز کا نشان ہو پاوں میں ورم پڑے ہوں۔

