Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shair Khan
  4. Ulma Mimbar Ke Waris Nahi

Ulma Mimbar Ke Waris Nahi

علما منبر کے وارث نہیں

ہیوسٹن کے ارب پتی جوڑے نینسی اور رچ کنڈر نے جب اپنی 11.2 ارب ڈالر کی دولت کا 95 فیصد فلاحی کاموں کے لیے وقف کرنے کا اعلان کیا تو ساری دنیا کے میڈیا نے اس پر تبصرے کیے کہیں تعریف کے پل باندھے گئے کہیں حیرت کا اظہار ہوا۔ مگر میں سوچتا رہا یہ فیصلہ دراصل ایک آئینہ ہے جو ہمیں دکھا رہا ہے کہ انسانیت کا مفہوم مذہب سے نہیں کردار سے پیدا ہوتا ہے۔

نینسی اور رچ کے پاس نہ اذان کی آواز گونجتی ہے نہ سحر کے وقت مسجد کے میناروں سے الصلوٰۃ خیر من النوم کی صدا بلند ہوتی ہے مگر ان کے دل میں انسان کے درد کی جو روشنی جلتی ہے وہ کسی ایمان دار کے چراغ سے کم نہیں۔ یہ لوگ نبی نہیں ولی نہیں مگر انسان ضرور ہیں اور شاید یہی وہ مقام ہے جسے ہم کھو چکے ہیں۔

ہم نے مذہب کو شعار بنا لیا مگر کردار کو بازار میں بیچ دیا ہمارے ہاں عبادتیں ہیں مگر احساس نہیں روزے ہیں مگر بھوک بانٹنے کا جذبہ نہیں حج ہیں مگر دلوں کی صفائی نہیں زکوٰۃ کے صندوق بھرتے ہیں مگر ضمیر خالی ہے ہم وہ قوم بن چکے ہیں جو مسجد کے باہر بھوکے کو دھتکار کر اندر صدقہ کی دعا پڑھتی ہے امریکہ جسے ہم کفر کی دنیا کہتے نہیں تھکتے وہاں ایک جوڑا اپنی دولت کا بیشتر حصہ انسانیت پر قربان کر دیتا ہے اور یہاں اسلامی جمہوریہ کے حکمران عوام کے خون پسینے کے ٹیکس پر اپنی جائیدادیں سات سمندر پار پھیلا دیتے ہیں۔

وہاں فلاح کے ادارے قائم کیے جاتے ہیں یہاں فلاحی فنڈ کے نام پر کمیشن کھایا جاتا ہے ہماری اشرافیہ کی ضمیر کی قبریں بہت گہری ہیں وہ جانتے ہیں کہ اقتدار ایک عارضی سایہ ہے مگر پھر بھی اس سایے کو دائمی بنانے کے لیے قوم کے حصے کا سورج چوری کر لیتے ہیں ان کے بنگلوں کے در و دیوار پر عوام کی محرومی کی چیخیں نقش ہیں مگر ان کے کان سننے کے عادی نہیں۔

یہ دو سیاسی خاندان اور ایک ہے نامی گرامی اسلامی جمیعت تینوں ایک ہی سکے کے رخ ہیں فرق صرف نعرے اور لبادے کا ہے ایک جمہوریت کے نام پر لوٹتا ہے دوسرا اسلام کے نام پر وہ جنہیں علماء کہا جاتا ہے ان میں سے اکثر نے اپنی عمامے نیلام کر دیے وہ منبر جو حق بولنے کے لیے تھا اب طاقتور کے قصیدے سنانے کے لیے استعمال ہوتا ہے یہ لوگ اب منبر کے وارث نہیں دربار کے کاتب ہیں اور عوام وہ ہر بار نئے نعرے نئے چہرے نئی امیدوں کے ساتھ وہی پرانے زخم سہتے ہیں ان کے ووٹ ایک خواب ہیں جو الیکشن کے بعد جاگ جاتے ہیں ان کی غربت سیاستدانوں کے منشور کی سب سے کارآمد شے ہے کیونکہ جب قوم بھوکی ہو تو ضمیر بھی آسانی سے خریدا جا سکتا ہے۔

ہمیں سمجھنا ہوگا کہ اسلام محض ایک عقیدہ نہیں بلکہ کردار کی ایک طرزِ زندگی ہے کلمہ پڑھ لینا ایمان کی ابتدا ہے، اختتام نہیں ایمان اس وقت مکمل ہوتا ہے جب انسان اپنے آس پاس کے انسانوں کے دکھ میں شریک ہو جب طاقتور کمزور کے لیے ڈھال بنے اور جب حکمران عوام کا خادم بنے، مالک نہیں نینسی اور رچ کنڈر نے ہمیں یہ سبق دیا کہ انسانیت مذہب کی پابند نہیں مگر مذہب انسانیت کا مقید ضرور ہے اور ہم نے یہ ثابت کر دیا کہ کلمہ پڑھنے سے جنت کے دروازے نہیں کھلتے اگر کردار جہنم جیسا ہو۔

اسلامی دنیا کے ارب پتی اگر صرف اپنی دولت کا پانچ فیصد بھی سچّی نیت سے فلاحی منصوبوں پر لگائیں تو دنیا کے کسی کونے میں کوئی بچہ بھوکا نہ سوئے، مگر افسوس یہاں دولت جمع کرنے کا مقصد خدمت نہیں تفاخر ہے یہاں خیرات بھی دکھاوے کی اور خدمت بھی سیاسی مفاد کی شاید اب وقت آ گیا ہے کہ ہم یہ سوال خود سے پوچھیں کیا ہم واقعی مسلمان ہیں یا صرف کلمہ خواں کیا ہم نے دین اپنایا ہے یا صرف اس کا کاروبار؟ کیا ہم انسان ہیں یا لالچ کے پجاری؟ جواب شاید تلخ ہو مگر لازم ہے کیونکہ صرف زبان کا لا الہ کافی نہیں جب تک دل کا اللہ بیدار نہ ہو۔

ہمارے قول و فعل کے تضاد نے ہم مسلمان کے چہرے پر شیطان کا عکس بنا دیا ہے۔ ہم تسبیح کے دانے گنتے ہیں مگر مظلوم کے آنسو نہیں ہم تراویح میں قیام کرتے ہیں مگر عدل کے قیام سے منہ موڑ لیتے ہیں۔ ہمارے حکمران اسلام کے نام پر آتے ہیں مگر جاتے وقت بینک بھر کر جاتے ہیں ہماری اشرافیہ نے عوام کے لہو سے اپنی جائیدادوں کی بنیاد رکھی ہے۔ ان کے بنگلوں کے فرش پر قوم کی بددعائیں بچھائی گئی ہیں اور ان کی گاڑیوں کے ٹائروں کے نیچے عوام کی امیدیں کچلی جاتی ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو دین کے نام پر دنیا خریدتے ہیں اور ضمیر کے نام پر ضمیر بیچتے ہیں۔۔

اسلام کہتا ہے افضل الناس من ینفع الناس اور ہم کہتے ہیں افضل وہ جو اقتدار کے قریب ہو یہی ہماری فکری موت ہے۔ ہم نے خدا کو عبادت میں محدود کر دیا اور انسانیت کو سیاست کے طاق پر رکھ دیا نینسی اور رچ کنڈر نے ہمیں بتا دیا کہ انسان ہونا مذہب سے اوپر کی سچائی ہے جبکہ ہم نے یہ ثابت کیا کہ مذہب کا نام لے کر انسانیت کو قتل کرنا بھی عبادت سمجھتے ہیں ہم ہر جمعہ کو منبر سے سنتے ہیں کہ ایمان عمل کے بغیر ادھورا ہے مگر جمعہ ختم ہوتے ہی ہم وہی کرتے ہیں جس سے ایمان ادھورا نہیں، مردہ ہو جاتا ہے آخر میں بس اتنا کہنا کافی ہے جب ضمیر مر جائے تو چہرہ مسلمان نہیں رہتا اور جب نیت سیاہ ہو جائے تو سجدہ بھی شیطان کا بن جاتا ہے علماء ممبر کے وارث کم اور اقتدار کے وارث زیادہ لگنے لگے ہیں جن لبوں سے کبھی حق کی صدا گونجتی تھی اب وہاں سیاست کی گھنٹی بجتی ہے۔

منبر جو کبھی کردار سنوارتا تھا آج کرسی کی وفاداری کا درس دیتا ہے۔ علم عبادت سے زیادہ مفاد کا ذریعہ بن گیا ہے اور وعظ و نصیحت کی جگہ مصلحت و منافع نے لے لی ہے۔ افسوس! جنہیں امت کی رہنمائی کا فریضہ سونپا گیا تھا وہی اب اقتدار کے در کے مسافر بن بیٹھے ہیں۔

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam