Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shair Khan
  4. Textile Ki Guzri Yaadein

Textile Ki Guzri Yaadein

ٹیکسٹائل کی گزری یادیں

بعض یادیں ایسی ہوتی ہیں جو وقت کے گزرنے کے باوجود ذہن کے کسی گوشے میں ویسے ہی تازہ رہتی ہیں جیسے بارش کے بعد مٹی کی خوشبو۔ ٹیکسٹائل کے شعبے میں گزرے بائیس برس، گویا ایک ایسا ناول ہے جس میں کردار بھی ہیں جذبات بھی، سازشیں بھی اور سچائیاں بھی۔

یہ صرف ایک پیشہ ورانہ سفر نہ تھا بلکہ انسانوں کو پہچاننے کی ایک مسلسل ریاضت تھی۔ کچھ چہرے ایسے ملے کہ گھنٹوں بیٹھنے کو جی چاہتا تھا اور کچھ ایسے کہ جنہیں دیکھ کر دل چاہے کہ زمین پھٹے اور یہ اس میں دفن ہو جائیں۔ ان کی مسکراہٹ میں شیطان چھپا ہوتا اور باتوں میں زہر۔ منافقت کا وہ اعلیٰ نمونہ تھے کہ شاید ابلیس بھی شرما جائے۔

میری پہلی ملازمت، کالج سے فارغ ہو کر نصرت ٹیکسٹائل ملز، جوہر آباد تیرہ والا موڑ سے شروع ہوئی۔ پہلی بار جوہر آباد کو دیکھا، کھلی سڑکیں کشادہ ماحول اور خوشاب کا "ڈھوڈا"، کیا چیز تھی! پہلا نوالہ ہی گویا خیرمقدمی تقریب بن گیا۔ نصرت ملز میں اُس وقت کے ڈائریکٹر، شبیر حسین چوہان صاحب اور اسپننگ مینیجر ثناء اللہ صاحب سے پہلی ملاقات ہی زندگی کا روشن باب بن گئی۔ چوہان صاحب کی گرمجوشی، گفتگو کا سلیقہ اور دل نوازی آج بھی ذہن میں نقش ہے۔ اللہ انہیں جوارِ آلِ محمدﷺ میں مقام عطا کرے۔

ثناءاللہ صاحب جو میرے اپنے علاقے سے تعلق رکھتے تھے، شفقت کا پیکر تھے۔ بطور ڈائریکٹر، نثار اسپننگ میں اُن کا کردار سنہری باب ہے۔ ان دونوں بزرگوں کے لیے دل سے دعا نکلتی ہے کیونکہ کچھ لوگ چلے جاتے ہیں مگر اُن کی خوشبو وقت کی دیواروں سے نہیں جاتی۔ چھ ماہ وہاں گزارے، پھر کوچ کیا شیخوپورہ کوالٹی ٹیکسٹائل کی طرف۔ غالباً 1998 کی بات ہے۔ یہاں جنرل مینجر جناب حسن رضا زیدی صاحب تھے۔ نرم خو، صاحبِ فہم اور باوقار شخصیت۔ یہاں دو سال کے قیام میں زندگی نے مزید سبق سکھایا۔ آگے بڑھنے کی لگن نے نشاط گروپ تک پہنچایا فروز وٹواں شیخوپورہ جہاں ایک نیا یونٹ قائم ہو رہا تھا۔

کوالٹی سپروائزر کی حیثیت سے میری تعیناتی ہوئی۔ ڈائریکٹر ظفر قریشی صاحب واقعی باکمال انسان تھے ان سے سیکھنے کو بہت کچھ ملا۔ ان کے سکینڈل مین چاچا بھٹی یعنی جناب ندیم آصف بھٹی، ٹیکنیکل مینیجر کی کرسی پر فائز تھے۔ غریب پرور، درد مند اور ہر دلعزیز شخصیت کوئی مزدور بیمار ہو جائے تو سب سے پہلے یہ ہسپتال پہنچاتے۔ دوائی، پھل، تیمارداری غرض محبتوں کا ایک پورا کارواں ان کے ہمراہ ہوتا۔ اللہ اُن کی عمر دراز کرے اور سلامت رکھے۔

مگر جیسا کہ عرض کیا، ہر پھول کے ساتھ کچھ کانٹے بھی ہوتے ہیں۔ ایسے بھی کردار ملے جو انسان کی شکل میں شیطان کا چربہ تھے۔ حلیہ شرعی، مگر نیت شیطانی۔ لمبی داڑھی، اونچی شلوار اور اندر سے خالص زہر۔ ان کا کاروبار ہی سازش، شکایت اور فتنے پھیلانا تھا ان کی موجودگی نے ماحول کو گویا میدانِ جنگ بنا دیا۔ جو کام جذبے سے ہوتا، وہ شک کے سائے میں آ جاتا ہر وقت شیطانی حرکتیں ہر وقت شیطانی چالوں سے ماحول کو گرمائی رکھنا انکا مشن تھا ایسے افراد کے لیے بس یہی دعا نکلتی ہے۔۔

یا اللہ! لوگوں کو ان کے شر سے محفوظ رکھنا اور منافقت کے ان پیکروں کو اُن کے حال پر چھوڑ دینا۔ نشاط گروپ میں سات سال گزارے۔ ہر سال ایک کتاب کے مترادف تھا پھر آگے بڑھنے کا شوق مجھے نوری آباد کراچی لے گیا، جہاں مجھے بطور اسپننگ مینیجر تعیناتی ملی۔ وہ باب اور اس کے مزید کردار، اگلی قسط میں سنائیں گے اگر زندگی نے وفا کی۔

یادیں وہ آئینہ ہیں جن میں ماضی کا عکس ہمیشہ دھندلا ہونے کے باوجود دل کو شفاف رکھتا ہے۔ کچھ چہرے روشنی دیتے ہیں، کچھ سائے اور زندگی انہی کے درمیان سفر کرتی ہے قافلے کے ساتھ یا تنہا۔

Check Also

Bani Pti Banam Field Marshal

By Najam Wali Khan