Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shair Khan
  4. Tanhai Ka Anjam

Tanhai Ka Anjam

تنہائی کا انجام

حضرت علیؓ کا قول ہے: تنہائی وحشت کو جنم دیتی ہے اور وحشت دل کو کمزور کرتی ہے۔

اسلام ایک ایسا مکمل ضابطۂ حیات ہے جو انسان کی انفرادی، اجتماعی، روحانی اور جسمانی ہر ضرورت کا خیال رکھتا ہے۔ دینِ اسلام نے جہاں ذکر، عبادت اور خلوت کو پسند کیا ہے، وہیں طویل اور مستقل تنہائی کو ناپسند کیا ہے کیونکہ تنہا انسان شیطان کے وسوسوں کا آسان شکار بن جاتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: شیطان انسان کے ساتھ ہوتا ہے جب وہ اکیلا ہوتا ہے اور دو آدمیوں سے وہ دور ہو جاتا ہے۔ (سنن ترمذی)

یہ حدیث مبارکہ اس حقیقت کو واضح کرتی ہے کہ انسان کی فطرت اجتماعی ہے اور جب وہ فطری دائرے سے نکل کر تنہائی کو اپناتا ہے تو شیطان اس کے دل و دماغ پر قبضہ جمانے لگتا ہے۔ خیالات میں وسوسے، مایوسی، خوف اور گناہوں کی طرف رجحان اسی تنہائی کا نتیجہ ہوتا ہے۔ آج کے جدید دور میں، جہاں ہر شخص سوشل میڈیا پر ہزاروں لوگوں سے جُڑا ہوا دکھائی دیتا ہے، وہاں دلوں کی تنہائی پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ چکی ہے۔ یہ تنہائی محض جسمانی نہیں بلکہ ذہنی اور روحانی خلا کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ یہی وہ خلا ہے جہاں شیطان اپنے افکار۔ شبہات اور گمراہیوں کا بیج بوتا ہے۔

اسلام نے اجتماعی عبادات جیسے جماعت کے ساتھ نماز، جمعہ، عیدین، حج اور روزہ افطار کی اجتماعی صورتیں اسی لیے رکھی ہیں تاکہ مومن تنہا نہ ہو۔ بھائی چارہ، تعلق اور ایک دوسرے کی خیر خواہی انسان کو شیطان کی چالوں سے محفوظ رکھتی ہے۔ عبادت میں خلوت ہو، لیکن زندگی میں اجتماعیت ہو۔ فکر میں گہرائی ہو، لیکن سماجی ربط بھی قائم رہے۔ آج کے دور میں جہاں ذہنی دباؤ، ڈپریشن اور مایوسی عام ہو چکی ہے، وہاں اسلام کا یہ پیغام بہت اہم ہے کہ تنہا مت ہو، ورنہ تم شیطان کے قریب ہو جاؤ گے اور جب مؤمن مؤمن کے ساتھ ہوتا ہے، تو اللہ اس کے ساتھ ہوتا ہے۔ آئے کراچی کے اس واقعے کی طرف سرسری نظر کرتے ہیں جہاں کئی دنوں بعد ایک ادارہ کی بدبودار لاش برآمد ہوئی۔

کمرہ بند تھا، دروازہ مقفل اور اندر ایک لاش مہینوں سے خاموش پڑی تھی۔ نہ کوئی آنکھ اشک بار تھی، نہ ماتم کی صدا، نہ کوئی قرآنی آیت فضا میں گونج رہی تھی۔ بس کچھ دیواریں تھیں، جو چیخ چیخ کر گواہی دے رہی تھیں ایک ایسی عورت کی تنہائی کی، جو کبھی اپنی خودمختاری پر نازاں تھی۔ اداکارہ "حمیرا اصغر" ایک حسین چہرہ، ایک مشہور نام، ایک آزاد عورت جس نے زندگی اپنے اصولوں پر جینے کی ٹھانی، جو میرا جسم میری مرضی کا جھنڈا اٹھائے زندگی کے اس موڑ پر آ کھڑی ہوئی، جہاں رشتے بےمعنی لگنے لگتے ہیں اور تعلق بوجھ۔

پولیس جب اس کی موت کی اطلاع دینے اس کے بھائی کو فون کرتی ہے، تو جواب ملتا ہے باپ سے بات کرو اور جب والد کو فون کیا جاتا ہے، تو ایک باپ تھکے ہوئے لہجے میں کہتا ہے ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں، لاش ہے تو جیسے چاہو دفناؤ فون بند ہو جاتا ہے، لیکن معاشرہ، رشتے اور اقدار پر سوال کھلا رہ جاتا ہے۔ کیا یہی وہ کامیابی تھی جس کے خواب ہماری نئی نسل کو فیمینزم کے خوشنما نعرے دکھاتے ہیں؟ کیا یہی وہ خود مختاری تھی جس کا انجام بوسیدہ لاش، بند دروازہ اور ویران تنہائی تھی؟

یہ صرف ایک واقعہ نہیں۔ یہ اس فکری گمراہی کا المیہ ہے جسے آج فیشن، آزادی اور حق کے نام پر فروغ دیا جا رہا ہے۔ فیمینزم کا آغاز عورت کے بنیادی حقوق سے ہوا، مگر انجام، تنہائی پر ہو رہا ہے۔ اس نے عورت کو ماں، بہن، بیوی اور بیٹی جیسے رشتوں سے نکال کر صرف "خود" بنا دیا اور یہی "خود" آخرکار اُسے بے یار و مددگار چھوڑ گیا۔

خاندان کا ادارہ، جو صدیوں کی تہذیب، قربانی، محبت اور وفا سے جُڑا ہے، اسے "زنجیر" کہہ کر توڑ دیا گیا اور جب وقت کی دھوپ نے جلایا، تو کوئی سایہ دار درخت ساتھ نہ تھا۔ فیس بک کی دوستیں، انسٹاگرام کے فالوورز، ٹوئٹر کے نعرے سب خاموش ہو گئے۔ باپ کا دروازہ بند، بھائی کا دل پتھر اور ماں شاید پہلے ہی رو رو کر مر چکی تھی۔ ہم ایک ایسے معاشرے میں جی رہے ہیں جہاں اگر بیٹی نافرمان ہو تو باپ ظالم کہلاتا ہے اور اگر باپ لاتعلق ہو جائے تو بیٹی کی خودمختاری کا جشن منایا جاتا ہے۔ عورت اگر گھر سے نکلے تو طاقتور کہلاتی ہے، طلاق لے تو "باہمت" قرار دی جاتی ہے، رشتے توڑے تو "خود شعوری کہلاتی ہے اور جب مر جائے، تنہا، گمنام، تو پورا معاشرہ خاموش تماشائی بن جاتا ہے۔ کاش حمیرا اصغر جان پاتی کہ فیمینزم، ماں کی گود جیسا تحفظ نہیں دے سکتا۔

کاش وہ سمجھتی کہ باپ کی ڈانٹ، محبت کی ایک گونج ہوتی ہے اور بھائی کی غیرت، عزت کی چادر۔ عورت مضبوط ہو، خودمختار ہو، لیکن وہ اپنے اصل سے جڑی رہے ماں کا پیار، باپ کی شفقت، بھائی کی غیرت، شوہر کی رفاقت یہ سب بوجھ نہیں، بلکہ وہ سائے ہیں جو وقت کی تیز دھوپ میں اسے جلنے سے بچاتے ہیں۔

حمیرا اصغر چلی گئی لیکن میرا جسم میری مرضی کی اندھی دوڑ میں آج بھی کئی بیٹیاں اسی انجام کی طرف بڑھ رہی ہیں ہم تب چونکتے ہیں، جب تعفن زدہ لاشیں دیواروں سے سوال کرنے لگتی ہیں۔

اداکارہ و ماڈل حمیرا اصغر علی جس کے سوشل میڈیا پر سات لاکھ سے زائد فالوورز تھے، جس کی زندگی روشنیوں سے جگمگا رہی تھی، جسے اشرافیہ کی پارٹیوں میں مدعو کیا جاتا تھا اور جو کتنے ہی دلوں کی دھڑکن سمجھی جاتی تھی آخرکار کراچی کے پوش علاقے ڈی ایچ اے کے ایک فلیٹ سے بوسیدہ، متعفن لاش کی صورت میں ملی لاش کی حالت یہ تھی کہ گوشت گل چکا تھا، صرف ہڈیوں پر کھال باقی تھی۔ کئی دن گزر گئے، کسی کو خبر نہ ہوئی کہ یہ چمکتی دنیا کی ایک "سٹار" تنہائی اور گمنامی میں بے جان پڑی رہی۔

آج کل کی ماڈلنگ اور شوبز کی دنیا کو دیکھیں تو ایک چیز واضح ہے: ظاہری جسم کی نمائش کو کامیابی سمجھا جا رہا ہے۔ فالوورز، لائکس، ویوز اور شہرت کی طلب میں عصمت، وقار، شرم و حیا کی تمام حدیں توڑی جا رہی ہیں۔

اسلام میں حیا کو ایمان کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: إنَّ لِكُلِّ دِينٍ خُلُقًا، وخُلُقُ الإسلامِ الحَياءُ۔

ہر دین کی ایک خصلت ہے اور اسلام کی خصلت حیا ہے۔ (ابن ماجہ)

جب انسان حیا کھو دیتا ہے تو اسے کسی گناہ پر ندامت نہیں ہوتی۔ فحاشی و عریانی نہ صرف فرد کی روح کو تباہ کرتی ہے بلکہ پورے معاشرے کو اخلاقی بانجھ پن میں مبتلا کر دیتی ہے۔

فلمی دنیا کی ظاہری چمک دراصل تنہائی، ذہنی دباؤ، استحصال اور بےیقینی سے لبریز ہوتی ہے۔ ایسی دنیا جہاں دوستی محض فائدے کی بنیاد پر ہو، وہاں انسان سب سے بڑھ کر خود کو تنہا پاتا ہے۔ حمیرا اصغر علی کی لاش، جو کئی دن بعد تعفن پھیلنے پر دریافت ہوئی، ہمارے لیے عبرت کی نشانی ہے کہ دنیا کی شہرت و دولت موت کو نہیں روک سکتی، نہ ہی کسی کو دائمی عزت دے سکتی ہے۔

یہ وقت ہے کہ ہم نوجوان نسل کو سکھائیں کہ سچی عزت، کامیابی اور سکون صرف اللہ کے دین میں ہے۔ ہمیں اپنے گھروں، تعلیمی اداروں، میڈیا اور سوشل پلیٹ فارمز پر اسلامی اخلاق، حیا اور عورت کی اصل عزت کو فروغ دینا ہوگا۔

ورنہ ہم ہر روز ایک نئی حمیرا اصغر کی لاش کی خبر سنیں گے اور صرف افسوس کرتے رہیں گے۔

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali