Taleemi Idaron Mein Aman Waqt Ki Zaroorat Hai
تعلیمی اداروں میں امن وقت کی ضرورت ہے

تعلیمی ادارے صرف ڈگریاں دینے کی فیکٹریاں نہیں معاشرے کی اخلاقی اور جذباتی تربیت گاہیں بھی ہیں لیکن آج ہمارے سکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ یہ بتاتا ہے کہ ہم نے طلبہ کو صرف نوٹس رٹانے اور نمبر لینے کی مشین بنا دیا ہے انہیں انسان بنانا دوسروں کے ساتھ محبت امن سے رہنا سکھانا بالکل بھلا دیا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ معمولی بات پر ہاتھا پائی۔ گروہ بندی، مذہبی جنون اور تشدد عام ہوگیا ہے۔ اب وقت ہے کہ ہم تعلیمی اداروں میں امن کی تربیت کو لازمی اور بنیادی نصاب کا حصہ بنا دیں یہ کوئی نرم گوشے کا مضمون نہیں بلکہ قوم کی بقا کا معاملہ ہے۔
طالب علم کو یہ سمجھایا جائے کہ مختلف مذہب، مسلک، صوبہ، زبان اور رنگ کا انسان بھی اسی طرح عزت اور حقوق کا مستحق ہے جیسے وہ خود ہے۔ کلاس روم میں بحث ہو کہ اختلافِ رائے جرم نہیں تشدد جرم ہے۔
ایک لازمی کورس ہو Conflict Resolution and Emotional Intelligence کا جس میں طلبہ کو سکھایا جائے کہ غصے کو کیسے کنٹرول کریں بات چیت سے مسئلہ کیسے حل کریں اور ذاتی انا کو کیسے پیچھے رکھیں عملی ورکشاپس ہوں جہاں طلبہ ایک دوسرے کے سامنے بیٹھ کر جھگڑوں کے ڈرامے کریں اور پھر انہیں بات چیت سے حل کریں۔
نصاب میں ایک باب ہو مذاہبِ عالم اور ان کی مشترکہ تعلیمات کا بتایا جائے کہ تمام مذاہب امن، محبت اور انصاف کی بات کرتے ہیں کوئی مذہب تشدد یا دوسرے کی توہین کی اجازت نہیں دیتا۔ عالموں، پادریوں اور بزرگوں کو مدعو کیا جائے جو مشترکہ طور پر طلبہ سے خطاب کریں۔ ہر کلاس میں ہفتے میں ایک گھنٹہ Character Building کا ہو۔ غصہ، حسد، انتقام جیسے منفی جذبات کو کیسے شکست دی جائے اس پر لیکچرز دئے جائیں مشہور لوگوں کی وہ مثالیں پڑھائی جائیں جنہوں نے صبر اور معافی سے بڑے بڑے جھگڑے ختم کیے۔ ہر تعلیمی ادارے میں Peace Ambassadors Club ہو جس کے ممبران دوسرے طلبہ کے جھگڑوں میں ثالثی کریں۔ انہیں خصوصی تربیت دی جائے اور اچھا کام کرنے والوں کو سرٹیفکیٹ اور انعامات ملیں۔ اگر امن کی تربیت نہ دی گئی تو کیا ہوگا؟
ہم وہی دیکھ رہے ہیں۔ ایک لڑکی کی بات پر مذہبی رنگ دے کر پورا ہاسٹل جلایا جاتا ہے سیٹ کے جھگڑے پر طلبہ ایک دوسرے کو مارنے پر تل جاتے ہیں سیاسی جماعتیں طلبہ کو اپنا ہتھیار بنا لیتی ہیں اور آخر میں تعلیم کا نام تک مٹ جاتا ہے۔ یہ سب اس لیے ہوتا ہے کہ طالب علم کے اندر انسانیت نہیں بھری گئی صرف ڈگری بھری گئی ہے۔
اب وقت ہے کہ وزارتِ تعلیم، ایچ ای سی اور تمام پرائیویٹ ادارے مل کر ایک مشترکہ پالیسی بنائیں کہ کلاس ون سے لے کر پی ایچ ڈی تک امن کی تربیت لازمی ہو جو ادارہ اس پر عمل نہ کرے اسے گرانٹ نہ ملے رینکنگ میں پیچھے رکھا جائے۔ یہ تحریر قراقرم یونیورسٹی میں دو طالب علم کی لڑائی پر ہے جہاں دو طالب علم لڑ پڑتے ہیں اور پھر اس لڑائی کو مذہبی رنگ دیکر پوری یونیورسٹی کا ماحول خراب کرنے کی کوشش کرتے ہیں اس ضمن میں خاکسار نے کوشش کی ہے اس پر روشنی ڈالی جائے اور اسکا حل تلاش کیا جائے۔
جب ہمارے بچے امن کا درس لے کر نکلیں گے تو نہ کوئی ذاتی لڑائی کو مذہب کا رنگ دے گا نہ ہجوم اکٹھا ہوگا نہ یونیورسٹی جلے گی یہ جنگ تشدد کے خلاف ہے جنون کے خلاف ہے جاہلیت کے خلاف ہے۔ یہ جنگ ہم سب کی ہے آئیے تعلیمی اداروں کو امن کی درس گاہیں بنا دیں تباہی کی نہیں تعلیم امن سکھائے تبھی یہ تعلیم ہے اھر امن محبت نہ سکھائے تو سمجھیں یہ سب سے بڑی جہالت ہوگی۔
گلگت بلتستان برفوں، پہاڑوں اور خاموش وادیوں کی سرزمین یہاں کی سادگی، محبت، بھائی چارہ اور صدیوں پرانی تہذیب ہمیشہ اس خطے کا فخر سمجھی گئی ہے لیکن افسوس کہ اسی خطے کی واحد اعلیٰ درسگاہ قراقرم یونیورسٹی آج کچھ ایسی کالی بھیڑوں کی زد میں ہے جو اپنی ذاتی دشمنیوں اور مفادات کو مذہب کا رنگ دے کر نہ صرف علمی ماحول کو آلودہ کر رہے ہیں بلکہ آنے والی نسلوں کے مستقبل سے بھی کھیل رہے ہیں۔ یہ کیسا المیہ ہے کہ جس درسگاہ سے روشنی نکلنی تھی وہاں آج دھواں اٹھ رہا ہے؟ جس جگہ ذہن کھلنے تھے وہاں نفرت کے در وا ہونے لگے ہیں اور جس یونیورسٹی میں دلیل اور تحقیق کی حکمرانی ہونی چاہیے تھی وہاں مکے نعرے اور مذہبی تعصبات کا شور سنائی دے رہا ہے اصل سوال یہ نہیں کہ تصادم کیوں ہوا؟ اصل سوال یہ ہے کہ یہ تصادم ہونے کیوں دیا گیا؟
کیا انتظامیہ نظم و ضبط کے تقاضے بھول چکی ہے؟ کیا ڈسپلن محض کاغذوں میں قید ہے؟ کیا چند شرپسند عناصر پوری درسگاہ کی ساکھ سے زیادہ طاقتور ہو چکے ہیں؟ یا اس ادارے کے منتظمین جان بوجھ کر ایسا ماحول پیدا کر رہے ہیں کہ افراد تفریح رہے علم نہیں جہالت پروان چڑھے یہ آئے روز کی مذہبی لڑائیاں تصادم منتظمین کی ناقص پالیسیوں کا منہ بولتا ثبوت ہیں یونیورسٹی کا ماحول تب خراب نہیں ہوتا جب دو طلبہ جھگڑتے ہیں ایسا ہر جگہ ہوتا ہے بلکہ ماحول تب زہر آلود ہوتا ہے جب کوئی شخص ذاتی لڑائی کو مذہبی جنگ بنا کر پیش کر دے اور انتظامیہ تماشائی بنی کھڑی رہے یہ لوگ وہی ہیں جن کے بارے میں شاعر نے کہا تھا۔۔
نہیں اینٹ کا جواب گالی کے سوا کچھ اور
یہ ہیں وہ لوگ جنہیں تہذیب نے رسوا کیا
یہ عناصر اپنی کمزوریوں اپنے عقدوں اپنی نفسیاتی بیماریوں پر پردہ ڈالنے کے لئے مذہب کا سہارا لیتے ہیں اور مذہب؟ وہ تو وحدت امن اور کردار کی تعلیم دیتا ہے مگر یہ لوگ مذہب نہیں مذہب کی آڑ میں اپنی بدکرداری چھپاتے ہیں وقت آ گیا ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ خواب غفلت سے جاگے یہ درسگاہ کوئی میدانِ جنگ نہیں کوئی خانقاہ نہیں کوئی سیاسی اکھاڑا نہیں یہ علم کے چراغوں کی جگہ ہے اس چراغ کو بجھنے نہ دینا آپ کی ذمہ داری ہے اگر انتظامیہ ایسے جھگڑوں کو روکنے میں ناکام ہے تو اپنے عہدے سے استعفی دے اور گھر چلے جائیں یہ روز روز کا تماشہ بند ہونا چاہئے۔
تعلیمی اداروں کے ماحول کو خراب کرنے والوں کو سزا ایسی ملنی چاہیے کہ عبرت بن جائے کہ آئندہ کوئی شرپسند شخص اپنے ذاتی جھگڑے کو مذہب کا لباس پہنانے کا سوچ بھی نہ سکے ورنہ آنے والی نسلیں یہی کہیں گی کہ جب نفرت چڑھ دوڑی تھی، تو اہلِ اختیار نے خوف کے سائے میں چھپ کر تماشہ دیکھا تھا۔ گلگت بلتستان میں ایک ہی یونیورسٹی ہے اگر یہاں بھی مذہبی تصادم ہماری قسمت بن گیا تو پھر ہم اپنے بچوں کو کہاں لے جائیں گے؟ کون سی فضا انہیں امن دے گی؟ کون سا ادارہ انہیں تحقیق برداشت اور انسانیت کا سبق پڑھائے گا؟
یہ معاملہ صرف ایک جھگڑے یا ایک گروہ کا نہیں یہ پورے خطے کی فکری سلامتی کا مسئلہ ہے اس کو حل کرنا وہاں کی انتظامیہ کی ذمہ داری ہے آؤ ہم سب مل کر آواز اٹھائیں کہ ہمارے بچوں کی درسگاہیں محفوظ رہیں۔ آئیں ان شرپسندوں کے خلاف اجتماعی اعلانِ بغاوت کریں جو علم کی سرزمین کو نفرت کے کھیتوں میں بدلنا چاہتے ہیں، آئیں انتظامیہ سے یہ سوال بار بار کریں کہ ہماری درسگاہوں کا تقدس کب محفوظ ہوگا اور جب تک جواب نہیں ملتاجب تک کارروائی نہیں ہوتی جب تک انصاف نہیں ملتا ہماری آواز رکنی نہیں چاہیے یہ لڑائی کسی مسلک کی نہیں یہ لڑائی علم کی ہے۔ یہ جنگ کسی گروہ سے نہیں، یہ جنگ جہالت کے خلاف ہے اور یہ جدوجہد جاری رہنی چاہیے تب تک جب تک یونیورسٹیاں نفرت سے پاک اور علم سے روشن نہیں ہو جاتیں۔

