Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shair Khan
  4. Tableegh Ki Nahi, Kirdar Ki Zaroorat Hai

Tableegh Ki Nahi, Kirdar Ki Zaroorat Hai

تبلیغ کی نہیں، کردار کی ضرورت ہے

تبلیغ، دین کا نہایت اہم فریضہ ہے، مگر جب یہ عمل کردار کے بغیر کیا جائے تو یہ نہ صرف بے اثر ہو جاتا ہے بلکہ انسان کو اندر سے کھوکھلا کر دیتا ہے۔ ایسی تبلیغ بظاہر دین کی خدمت لگتی ہے، مگر درحقیقت یہ ایک دکھاوا، ایک نمائش اور سب سے بڑھ کر اپنی ذات سے سب سے بڑا دھوکہ ہے۔ جو شخص خود جھوٹ بولتا ہو، وعدے پورے نہ کرتا ہو، غیبت کرتا ہو، اخلاق سے محروم ہو اور پھر دوسروں کو دین کی طرف بلائے، تو اس کی دعوت الفاظ کا شور تو بن سکتی ہے، مگر ہدایت کا ذریعہ نہیں۔

یہ بالکل اس شخص کی مانند ہے جو دوسروں کو راستہ تو بتا رہا ہو مگر خود اندھیرے میں ٹھوکر کھا رہا ہو۔ ایسی تبلیغ محض زبانی جمع خرچ ہے، جس میں روحانی اثر نہیں ہوتا۔ یہ عمل رفتہ رفتہ انسان کو اندر سے تھکا دیتا ہے، کیونکہ وہ وہ کچھ کہہ رہا ہوتا ہے جو وہ خود نہیں کر رہا۔ ضمیر ہر بار اسے جھنجھوڑتا ہے، لیکن وہ اسے خاموش کرنے کے لیے مزید بولتا ہے۔ نتیجہ؟ نہ خود سکون پاتا ہے نہ دوسروں کو راستہ دکھا پاتا ہے۔ یہ عمل ایک مسلسل تضاد کی زندگی ہے۔ جس میں انسان عوام کے سامنے "صالح" اور تنہائی میں "گمراہ" ہوتا ہے اور یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جہاں تبلیغ بندے کے لیے ذریعۂ ثواب نہیں بلکہ ذریعۂ فریب بن جاتی ہے اپنی ذات سے فریب۔

یاد رکھیں! تبلیغ کا سب سے مؤثر ذریعہ زبان نہیں، کردار ہے اور جب کردار ہی غائب ہو تو الفاظ کا بوجھ ایک دن انسان کو توڑ دیتا ہے دوپہر کا وقت تھا۔ سورج اپنی تپش کے جلال پر تھا۔ میں ایک چائے کے ہوٹل پر بیٹھا چائے پی رہا تھا۔ سامنے والے چوک پر ایک نوجوان ہاتھ میں مائیک لیے تبلیغ کر رہا تھا "نماز قائم کرو، عورتوں کو پردے میں رکھو، موبائل کے فتنے سے بچو، جہنم کا ایندھن نہ بنو! اگر وقت ملے تو تبلیغی جماعت کے ساتھ کچھ وقت لگاو آج شام کو فلاں مسجد میں جماعتیں تشکیل دی جارہی ہیں تو ضرور اس میں شامل ہوجائیں اور اپنی آخرت سنواریں یہی موقع ہے یہی وقت ہے یہ الفاظ ہر کوئی سن رہا تھا کچھ توجہ سے سن رہے تھے تو کچھ اپنی خوش گپیوں میں مصروف تھے اور کچھ اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے بڑے آئے ہیں تبلیغ والے تو میرے معزز قارئین یہ زندگی جب تک ہے ہر کوئی کسی نہ کسی رنگ میں اچھائی کے پہلو میں، برائی کے پہلو میں مختلف رنگ میں مختلف کردار میں جلوے بکھیر رہا ہے مگر باطن میں ان کے کیا ہے یہ یا تو وہ بندہ جانتا ہے یا اس کا خدا۔۔

الفاظ میں درد تھا، آواز میں سچائی کا تاثر اور چہرے پر تقویٰ کی چمک۔ لیکن جیسے ہی اس کی تقریر ختم ہوئی، وہی نوجوان چائے کے ہوٹل میں داخل ہوا اور ویٹر سے جھگڑنے لگا اب تبلیغ کا عمل ختم کردار کا عمل شروع ہوا "کتنی بار کہا ہے کہ میرے لیے چائے الگ کپ میں بنایا کرو، تم لوگ صفائی کا خیال نہیں رکھتے! اور پھر چند لمحوں بعد بغیر پیسے دیے، چلتا بنا۔

میں خاموش بیٹھا یہ منظر دیکھ رہا تھا لیکن دل میں ایک سوال مسلسل گونج رہا تھا یہ تبلیغ تھی یا تاثر؟ یہ دعوت تھی یا دھونس؟ کردار اور الفاظ کی جنگ کا یہ منظر بڑا عجیب منظر تھا۔ ہمارا المیہ یہی ہے۔ ہم الفاظ سے قائل کرنا چاہتے ہیں، مگر ہمارے اعمال ہمیں رسوا کر دیتے ہیں۔ ہم دین کو "کہنے" تک محدود کر چکے ہیں، "جینے" تک نہیں پہنچا سکے۔ ہم منبر پر بیٹھ کر سچ کی تلقین کرتے ہیں اور بازار میں تول کم کرکے بیچتے ہیں۔ ہم غریبوں کے لیے چندہ جمع کرتے ہیں اور اس میں سے اپنے لیے کمیشن نکال لیتے ہیں۔ ہم حج سے واپس آ کر لوگوں کو صبر کی تلقین کرتے ہیں، مگر اپنی بیوی سے بدزبانی نہیں روک سکتے۔ تو کیا واقعی ہمیں تبلیغ کی ضرورت ہے؟ یا پہلے تربیت کی؟

نبی کریم ﷺ نے 40 برس تک کچھ نہیں کہا، کوئی تبلیغ نہیں کی بس اپنا عمل جاری رکھا۔ لوگوں نے ان کے سچ، ان کی دیانت، ان کے رویے کو دیکھا اور کہا: "یہ شخص جو کچھ کہے گا، سچ کہے گا"۔ تب جا کر اللہ نے انہیں تبلیغ کا حکم دیا۔ آج ہم نے اس ترتیب کو الٹا دیا ہے۔ پہلے بولتے ہیں، پھر کردار کی فکر کرتے ہیں اور بعض اوقات وہ بھی نہیں۔

میرے ایک بزرگ دوست اکثر کہتے ہیں: "بیٹا! ہمارے دور میں تبلیغ نہیں ہوتی تھی، کردار ہوتا تھا۔ ہمارے محلے میں ایک حاجی صاحب تھے۔ وہ کسی سے زور سے بات نہیں کرتے تھے، نماز کبھی نہیں چھوڑتے تھے، ہمیشہ سادہ لباس پہنتے تھے۔ ان کے ساتھ بیٹھنے سے لوگ دین کی طرف مائل ہو جاتے تھے اور آج ہمارے اردگرد داڑھی والے بھی ہیں، نمازی بھی، حج و عمرہ کرنے والے بھی، مگر لوگ دین سے دور کیوں جا رہے ہیں؟

کیونکہ ہم نے اسلام کو ایک پرفارمنس بنا دیا ہے، ایک شو، ایک نمائش۔ آپ نے کتنے ایسے علماء دیکھے ہوں گے جو عوامی جلسوں میں نبی کریم ﷺ کی محبت کا پرچار کرتے ہیں، مگر نجی مجالس میں ایک دوسرے کی غیبت کرتے ہیں۔ ایک مشہور دینی ادارے کے نگران کو میں جانتا ہوں، جو چندہ دینے والے کے آگے مسکرا کر جھکتا ہے، مگر مدرسے کے طالب علموں کو معمولی غلطی پر تھپڑ مارتا ہے۔ ایک دوست نے بتایا کہ وہ جمعے کے خطبے میں امام صاحب کے عشقِ رسول ﷺ پر رو پڑے، مگر جمعے کے بعد اسی امام صاحب کو دکاندار سے جھگڑتے اور گالیاں دیتے سنا۔ یہ سب کچھ دیکھ کر انسان سوچنے پر مجبور ہوتا ہے کہ کیا واقعی ہمیں تبلیغ کی ضرورت ہے؟ یا ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنے کی؟

حل صرف ایک ہے کردار۔ اگر ہم اپنے کردار کو تبلیغ بنا لیں تو ہمیں مائیک کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ ہماری خاموشی بھی پیغام بنے گی، ہمارا صبر بھی درس، ہماری سچائی بھی ہدایت۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت علیؓ نے فرمایا تھا تبلیغ بہت ضروری ہے، لیکن اس سے پہلے خود کو تیار کرنا اور سنوارنا اس سے کہیں زیادہ ضروری ہے۔ ورنہ ہماری تبلیغ، ہماری بدعملی کے بوجھ تلے دب کر بے اثر ہو جائے گی اور وہ دن دور نہیں جب لوگ کہیں گے: "یہی ہیں وہ لوگ جو ہمیں دین سے دور لے گئے! " اللہ ہم سب کو باعمل مسلمان بننے کی توفیق عطا فرمائے۔

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam