Ta Hayat Mohlat Se Pareshan Na Hon
تاحیات مہلت سے پریشان نہ ہوں

کہانی ایک خواہش سے شروع ہوئی تھی، ایک ایسی خواہش جو انسانی نفسیات کی گہرائیوں میں دفن ہے جہاں خود غرضی اور ابدییت کا وہم مل کر ایک زہر بنا لیتے ہیں "ربِّ انظرنی إلى یوم یبعثون" یعنی اے رب! مجھے قیامت تک مہلت دے۔ یہ التجا شیطان نے کی تھی، جب اسے جنت سے نکالا جا رہا تھا۔ وہ پہلا باغی تھا جس نے انجام کو ٹالنے کی کوشش کی، موت کو دھوکہ دینے کا خواب دیکھا اور اس دن سے آج تک ہر صاحبِ نفس، ہر اقتدار کا عادی، ہر خود ساختہ مسیحا کی زبان سے یہی صدا گونجتی رہتی ہے مجھے بھی تاحیات مہلت دے دو۔
کسی کو کرسی سے علیحدگی گوارا نہیں کسی کو عزت کی چادر اتارنا برداشت نہیں اور کسی کو اقتدار کی نالیوں میں بہتے عیش و اختیار سے دستبرداری کا خیال بھی خوفناک لگتا ہے گویا ابلیس کی سنت محض لعن طعن اور کہانیوں کے لیے نہیں رہی، یہ سیاسی میراث بن چکی ہے ایک وراثتی بیماری جو نسل در نسل منتقل ہوتی ہے۔ آج کا منظرنامہ دیکھیے تاحیات استثنیٰ، تاحیات سربراہی، تاحیات چیئرمینی، تاحیات قیدِ نرگسیت یہ سب وہی مہلتیں ہیں جو کسی زمانے میں شیطان نے مانگی تھیں فرق صرف یہ ہے کہ اس نے خدا سے التجا کی اور یہ لوگ خلقِ خدا سے چھین کر لیتے ہیں ووٹوں کی آڑ میں جھوٹے وعدوں کی زنجیروں میں یا طاقت کے بل بوتے پر یہ عجب وراثتی منطق ہے جو کہتی ہے ہمیں حق حاصل ہے یہ ہمارا خاندانی حصہ ہے۔
باپ بادشاہ تھا، تو بیٹا شہزادہ بن بیٹھا باپ کرسی پر براجمان تھا، تو بیٹے نے دعویٰ ٹھوک دیا اور اگر باپ نے زبان سے کچھ چھوڑا نہیں، تو بیٹے نے تحریر میں چھین لیا – قوانین بدل کر، آئین مسخ کرکے جمہوریت کو خاندانی جاگیر بنا کر۔ یہ وراثت نہیں یہ وراثتی وہم ہے، ایک نفسیاتی فریب جو انسان کو خدا کے برابر سمجھنے پر مجبور کرتا ہے۔ مگر سوال یہ ہے: جو خود کو خدا کا مدمقابل سمجھتا ہے، وہ وراثت سے پیچھے کیوں ہٹے؟ وہ تو ابدییت کا دعویٰ کرتا ہے جیسے شیطان نے کیا تھا۔
مہلت مانگنے والوں کا انجام تاریخ گواہ ہے کہ مہلت مانگنے والوں نے کبھی انجام کو قبول نہیں کیا وہ ہمیشہ بھاگتے رہے موت سے جوابدہی سے، حقیقت سے۔ فرعون نے کہا تھا "أنا ربكم الأعلى" میں تمہارا سب سے بڑا رب ہوں اس نے ندیوں کو اپنا غلام بنا لیا دریاؤں کو حکم دیا کہ وہ اس کی مرضی سے بہیں۔ مگر ندیوں نے ہی اسے بہا دیا لہریں اٹھیں اور اس کی سلطنت کو نگل گئی نمرود نے دعویٰ کیا "أنا أحيي وأميت" میں زندگی دیتا ہوں اور موت دیتا ہوں۔ وہ اپنے تخت پر بیٹھا کھیل کھیلتا رہا مگر ایک چھوٹے سے مچھر نے اسے آئینہ دکھا دیا ناک میں گھس کر اس کی ناک میں دم کرکے اسے موت کی نیند سلا دیا اور اب کے زمانے کا انسان؟
وہ کہتا ہے میں تاحیات رہوں گا وہ قوانین بناتا ہے آئین میں ترامیم کرتا ہے اداروں کو اپنی جاگیر بنا لیتا ہے۔ مگر قبر کی مٹی ابھی بھی تازہ ہے بھولی نہیں۔ وہ مٹی جو ہر تاحیات کے خواب کو دفن کرتی ہے یہ جو تاحیات کی ڈیمانڈ ہے یہ دراصل موت سے فرار کی سیاست ہے یہ گھمنڈ ہے غرور ہے ایک نفسیاتی جنگ جو انسان اپنے اندر لڑتا ہے۔ جس نے بھی اقتدار کو باپ کی جاگیر سمجھا اس نے قوم کو یتیم کر دیا جس نے عزت کو موروثی سمجھا اس نے کردار کو مسخ کر دیا اور جو آج چیختے پھرتے ہیں کہ ہمیں کیوں نکالا؟ دراصل وہ یہی کہہ رہے ہوتے ہیں ہم سے ابلیسی وراثت کیوں چھینی گئی؟
مگر قوم بھی اب عجب سکوت میں ڈوبی ہے۔ ہر بادشاہ کے ظہور پر تالیاں ہر زوال کے وقت آنسو۔ گویا عوام بھی تاحیات غلامی کی قائل ہیں یہ بھی مہلت کے سوداگر ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ یہ مہلت ووٹ کے ذریعے دیتے ہیں امیدوں کی تجارت کرتے ہیں اور پھر بھول جاتے ہیں وہ ووٹ ڈالتے ہیں تو جیسے شیطان کو دوبارہ مہلت دے رہے ہوں قیامت کو ٹالتے ہوئے سو اب جو شخص تاحیات مہلت مانگتا ہے میں اسے برا نہیں سمجھتا آخر وراثت ہے، خون میں شامل عادت ہے ابلیس کا پہلا سبق یہی تھا اپنے وقت کو قیامت تک پھیلاؤ تاکہ جوابدہی کبھی نہ آئے مگر یاد رکھو جو خود کو مہلت دیتا ہے وقت اس سے مہلت نہیں لیتا وقت کا دربار بلا اجازت داخل ہو جاتا ہے وہ گھڑی کی سوئیوں کی طرح چلتا رہتا ہے نہ رکتا ہے نہ رحم کرتا ہے اور وہ سب جو تاحیات تھے ایک دن مرحوم بن کر رہ جاتے ہیں ایک قبر میں ایک یادگار میں یا تاریخ کی دھول میں شیطان کی طرح انسانی نفسیات بھی تاحیات مہلت کی خواہش کی طلبگار رہتی ہے مگر حقیقت یہی ہے کہ تاحیات کی خواہش انسانی احمقانہ سوچ ہے انسان اپنی شیطانی سوچ میں اس قدر غرق ہے اس قدر آگے نکل چکا ہے کہ اس کی ہر خواہش شیطانی خیالات سے ملتی جلتی ہے۔ اللہ سے دور جب بھی کوئی اس خواہش کا طلبگار ہوا شیطان کی طرح لعنت کا حقدار ٹھہرا۔
یہ کہانی شیطان سے شروع ہوئی مگر انسان پر ختم ہوتی ہے تاحیات مہلت کی یہ تڑپ نفسیاتی ہے سیاسی ہے سماجی ہے اور سب سے بڑھ کر روحانی ہے جو اللہ کی طرف لوٹ آئے وہ مہلت نہیں مانگتا وہ توبہ مانگتا ہے جو اللہ سے دور ہوا وہ شیطان کا وارث بنتا ہے اور تاریخ کا چرخہ گھومتا رہتا ہے مہلت مانگنے والے آتے ہیں دعوے کرتے ہیں اور پھر مٹ جاتے ہیں صرف اللہ کی ذات باقی رہتی ہے جو نہ مہلت مانگتی ہے نہ ختم ہوتی ہے۔
تاحیات مہلت سے پریشان نہ ہوں یہ وہم ہے فریب ہے۔ اصل زندگی تو اللہ کی رضا میں ہے جوابدہی میں ہے اور انجام کی تیاری میں شیطان کی التجا رد ہوئی تھی اور ہر انسانی التجا بھی رد ہوگی جب قیامت کا دن آنکھیں کھول دے گا تب یہ ساری خواہشیں عذاب بن کر گھیر لیں گے پھر ہوگا وہی جو رب چاہے گا۔

