Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shair Khan
  4. Smog Guns Ka Naya Tamasha

Smog Guns Ka Naya Tamasha

سموگ گنز کا نیا تماشا

سردی نے ابھی دروازے پر دستک دی ہی تھی کہ لاہور نے اپنی پرانی چادر دوبارہ اوڑھ لی وہی بھوری، گدلی، زہریلی چادر جسے ہم محبت سے سموگ کہتے ہیں۔ فضا اتنی بوجھل ہے کہ سانس لینا بھی جرم لگنے لگا ہے اور آنکھوں میں جلن اب موسم کا حصہ بن چکی ہے۔ مگر حکمران طبقہ اب بھی پُرسکون ہے کیونکہ ان کے لیے یہ صرف فضائی مسئلہ نہیں بلکہ سیاسی موقع ہے اب ایک نئی واردات سامنے آئی ہے فرمایا گیا ہے کہ سموگ گنز منگوائی جا رہی ہیں۔ پورے پندرہ عدد۔ ایک ایک گن ساڑھے چار کروڑ روپے کی ارے واہ! یہ تو وہ توپیں ہیں جو دشمن نہیں ہوا سے جنگ لڑیں گی۔ ان توپوں کا کام سموگ ختم کرنا ہے مگر انجام وہی پرانا دکھاوا تصویری بیانات اور کمیشن کی خوشبو یعنی باپ دو نمبر تو بیٹی دس نمبری ایک گن ساڑھے تین لاکھ لیٹر پانی ایک وقت میں فضا میں اڑاتی ہے۔

اب اگر یہ پندرہ گنیں بیک وقت چلیں تو پچاس لاکھ سے زیادہ لیٹر پانی ایک ہی جھٹکے میں اڑا دیا جائے گا۔ وہی پانی جس کے لیے لاہور کے شہری روز لائنوں میں لگے ہوتے ہیں وہی پانی جو ہسپتالوں میں مریضوں کو نصیب نہیں وہی پانی جسے بچانے کے وعدے ہر انتخابی جلسے میں کیے جاتے ہیں۔ مگر یہاں عقل کم اور نمائش زیادہ ہے۔ یہ سموگ گنز نہیں دراصل کمیشن کے توپ خانے ہیں ان کا مقصد فضا صاف کرنا نہیں جیبیں بھرنا ہے۔ حکمرانوں کو مشورہ دینے والے بیوروکریٹس دراصل سمجھ دار ٹھگ ہیں۔ وہ ہر نئے وزیر کو یہ احساس دلاتے ہیں کہ صاحب! اگر آپ کے دورِ اقتدار میں کوئی نیا پراجیکٹ نہیں آیا تو عوام کیا یاد رکھیں گے؟ اور یوں ایک نیا منصوبہ جنم لیتا ہے خواہ وہ ناکام ہو بے مقصد ہو، یا عوام کے پیسے کا جنازہ ہی کیوں نہ ہو۔

چین جیسا ملک جہاں ٹیکنالوجی اور نظم و ضبط کی مثالیں دی جاتی ہیں وہاں یہ تجربہ ناکام ہوا۔ مگر ہم ہیں کہ اسی ناکامی کو اپنی کامیابی کا عنوان بنا کر پیش کرتے ہیں۔ شاید ہم وہ قوم ہیں جو تاریخ سے سبق نہیں سیکھتے بس کمیشن کھانے کے طریقے ڈھونڈ رہے ہیں یہ کمیشن خوری انکا جدی پشتی پیشہ ہے اس کے بغیر انکی روٹی ہضم نہیں ہوتی تاریخ اٹھا کر دیکھیں باپ سے چاچا اور اب بیٹی اسی ڈگر کمیشن پر اپنی پوری توجہ فوکس کئے آگے بڑھ رہی ہے

اصل مسئلہ فضا کا نہیں نیت کا ہے ہم نے درخت کاٹ دیے کارخانے بغیر فلٹر کے چلنے دیے، گاڑیوں کے دھوئیں کو ترقی کا نشان سمجھا اور جب فضا زہریلی ہوگئی تو پانی سے دھواں دھونے نکلے۔ یہ سوچنا بھی مضحکہ خیز ہے کہ ہم دھند کو پانی سے مار سکیں گے جب کہ ہمارے دل اور فیصلے خود دھندلے ہو چکے ہیں۔ ہمارے حکمران فائلوں میں ماحولیاتی پالیسیوں کے قصیدے لکھتے ہیں مگر زمینی حقیقت یہ ہے کہ لاہور کی فضا میں آلودگی سے زیادہ بد نیتی پھیلی ہوئی ہے۔ ہر سال سردی آتی ہے، ہر سال سموگ بڑھتی ہے ہر سال اجلاس ہوتے ہیں، ہر سال وہی اعلانات اور پھر خاموشی۔ یوں لگتا ہے جیسے سموگ صرف فضا میں نہیں بلکہ ضمیر پر بھی چھا چکی ہے در اصل یہ سموگ ہماری اجتماعی سوچ کا آئینہ ہے۔

یہ وہ دھند ہے جو ہماری آنکھوں کے سامنے پھیلی ہوئی ہے مگر ہم دیکھنے سے انکاری ہیں۔ یہ وہ آلودگی ہے جو فضا میں نہیں سیاست میں ہے۔ جو ہوا میں نہیں، نظام میں ہے۔ جو سانسوں میں نہیں، سوچوں میں ہے ہمارے ملک میں ہر مسئلہ کمیشن کا موقع ہے۔ اسکول تب بنتے ہیں جب ٹھیکے دار تیار ہوں۔ سڑکیں تب بنتی ہیں جب کمیشن مقرر ہو اور اب سموگ بھی تب ختم ہوگی جب سموگ گن کے نام پر کچھ جیبیں بھر لی جائیں۔ قوم کا سرمایہ غریب کے ٹیکس کا پیسہ، عوام کی محنت کی کمائی سب سیاست کے دھوئیں میں تحلیل ہو جاتا ہے اور پھر فضا مزید دھندلا جاتی ہے۔

سوال یہ نہیں کہ سموگ کیوں بڑھ رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہم نے اس دھند میں دیکھنا کب بند کیا؟ ہم نے اپنی آنکھوں پر کمیشن کا غلاف، مفادات کا پردہ اور جھوٹے وعدوں کا دھواں کب ڈال لیا؟ لاہور کا آسمان تو صاف ہو بھی جائے مگر ہماری نیتیں کب صاف ہوں گی؟ یہ سموگ گنز چند لمحوں کے لیے دھواں تو ہٹا سکتی ہیں مگر جو زہر ہمارے اندر جمع ہو چکا ہے اسے کوئی مشین نہیں دھو سکتی یہ گنیں نہیں ایک قوم کی سوچ پر طنز ہیں اور جب سوچ زہریلی ہو جائے تو فضا سے زیادہ خطرناک وہ دماغ ہو جاتے ہیں جو اسے صاف کرنے نکلتے ہیں لاہور باغوں خوشبوؤں اور ادبی ذوق کا شہر۔

کبھی یہاں بہار کے جھونکے گلاب کی خوشبو لاتے تھے آج وہی ہوا زہریلے دھوئیں کی بدبو سے بھر گئی ہے آسمان پر دھند کی تہہ نہیں، سیاست اور نالائقی کا کوہِ سیاہ چھایا ہوا ہے یہ بظاہر ترقی کا لگتا ہے مگر مقصد اندرونِ خانہ کمیشن، نمبر اور تعلقات کا کھیل ہوتا ہے یہ ساری کہانی ماحولیاتی اصلاح کے نام پر قومی خزانے کے ساتھ کھیلنے کی ہے۔ یہ گنیں نہیں دکھاوے کے فوارے ہیں جو ہوا صاف نہیں کرتیں بلکہ نیت کی گندگی کو اور نمایاں کر دیتی ہیں لاہور کو پیرس بنانے والا چاچا پیرس تو نہیں بنا سکا البتہ اب بھتیجی لاہور کا بیڑا غرق کرکے دم لے گی جس خاندان میں کمیشن خوری کا نشہ ہو وہ ملکی ترقی کے بہانے اپنی جیبیں بھرتے ہیں اخبار کی سرخیوں اور جھوٹے میڈیا کی خبروں میں انکی ترقی دوڑتی ہے حقیقت میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے سوائے ملکی خزانے کو چونا لگانے کے۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari