Sana Yousuf Ke Qatal Ka Zimmedar Kon?
ثناء یوسف کے قتل کا ذمہ دار کون؟

یہ سوال محض ایک فرد کے انجام کا نہیں پورے معاشرے کے اجتماعی ضمیر کا محاسبہ ہے۔ ثناء یوسف کے قتل کی ذمہ داری کسی ایک شخص یا قاتل پر ڈال کر ہم اصل سوال سے منہ نہیں موڑ سکتے۔ شاید جزوی طور پر اس نے اپنی حدود کو توڑا، شہرت کی خواہش میں اخلاقی زوال کو نظرانداز کیا اور خود کو ایسے راستے پر ڈال دیا جہاں واپسی کا دروازہ بند تھا۔ والدین نے پیسے کی چمک میں بیٹی کی کردار سازی کے بجائے اس کی مارکیٹنگ کو ترجیح دی۔
تربیت کے بجائے تحفظ کو چھوڑا اور وقتی کامیابی پر دائمی تباہی کا سودا کیا سب سے بڑا ہاتھ یہی ہے۔ وہ سوشل میڈیا جس نے لائکس کے بدلے لباس چھین لیے، وہ صارفین جنہوں نے ہر ویڈیو پر تماش بین بن کر کردار کشی کو فروغ دیا اور وہ اندھی خواہشیں جنہوں نے نہ عمر دیکھی نہ انجام۔ ثناء ایک واقعہ نہیں ایک علامت ہے اس بیٹی کی جو لالچ، غفلت اور بے لگام آزادی کے بیچ کچلی گئی۔ اگر ہم نے اب بھی آنکھ نہ کھولی، تو کل یہ سوال ہماری دہلیز پر ہوگا، آپ کی بیٹی کا قاتل کون ہے؟
لگتا ہے کچھ لوگ بہشتِ بریں کے کسی خیالی کونے میں بیٹھ کر منطق کے موتی پرو رہے ہیں مگر زمین کی سچائی آنکھوں سے انہیں دکھائی نہیں دے رہی ہے حقیقت یہ ہے کہ انسان مرتا ہے مگر اس کا کردار نہیں مرتا کردار یا تو دعا کے پھول اگاتا ہے یا طعنوں کے کانٹے۔
ثناء یوسف کی موت پر جذبات کا جو طوفان اُٹھا ہے، اس میں کچھ لوگ اسے مظلومہ کے روپ میں دیکھ رہے ہیں، مگر ہم میں سے کئی ایسے بھی ہیں جنہوں نے اس کی ویڈیوز دیکھی ہیں ایسی ویڈیوز جو ایک شریف ماں بیٹی کو کرنا تو درکنار، دیکھنا بھی گوارا نہ ہو۔ یہ کوئی کردار کشی نہیں، بلکہ خود اس کردار کی پیدا کردہ گندگی کا آئینہ ہے۔ یہ کہانی کسی ایک لڑکی کی نہیں، ایک سوچ کی ہے کہ شہرت کا ہر راستہ درست نہیں اور پیسہ ہر چمکتی چیز کو سونا نہیں بنا دیتا۔
ہم یہ نہیں کہتے کہ اس کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ درست تھا۔ قتل کسی مسئلے کا حل نہیں۔ مگر اس دردناک انجام کے پیچھے جو وجہ چھپی ہے، اس پر آنکھیں بند کرنا بھی جرم ہے۔ پیسے کی ہوس، سوشل میڈیا کی بے لگام دوڑ اور اخلاقی حدود کی دھجیاں یہی عناصر اس داستان کے خونی انجام کا سبب بنے۔
ذمہ داری صرف اس لڑکی کی نہیں تھی، اس کے والدین کی بھی تھی، جنہوں نے پیسے کی چمک میں اپنی بیٹی کی حرکات کو نظرانداز کیا۔ یہ سب کچھ ماڈرن بننے کے نام پر جائز ٹھہرانا، آخرکار اندھے کنویں میں دھکیل دینے والا بن گیا۔ اب سوال یہ ہے ہم کہاں جا رہے ہیں؟ شہرت کے لیے کیا ہم عزت کو اور پیسے کے لیے کیا ہم غیرت کو قربان کر دیں گے؟ کیا ایک بیٹی کی تربیت صرف اچھے کپڑے اور موبائل فون تک محدود ہے؟ نہیں!
تربیت یہ سکھاتی ہے کہ جو چمکتا ہے، وہ سب سونا نہیں ہوتا اور جو وائرل ہوتا ہے، وہ ہمیشہ معتبر نہیں ہوتا۔
یہ کہانی ختم ہوئی، مگر ہمیں ایک سبق دے گئی، حدوں میں جینا سیکھو، عزت سے بڑھ کر کوئی دولت نہیں اور کردار سے بڑھ کر کوئی پہچان نہیں۔
خود اپنا اور اپنے بچوں کو بہتر خیال رکھیں اور خوش رہیں۔۔

