Sabr Ke Wali Ya Khud Farebi Ke Shahenshah?
صبر کے ولی یا خود فریبی کے شہنشاہ؟

کہتے ہیں خواب وہ نہیں جو نیند میں آئیں، بلکہ وہ ہیں جو انسان کو سونے نہ دیں۔ مگر ہم گلگت بلتستان والے استوری، بلتی، گلگتی، ہنزائی، شین، وہ خواب دیکھتے ہیں جو نیند میں آتے ہیں اور جاگنے سے پہلے بھاگ جاتے ہیں۔ ہمارے پاس خواب ہیں، امیدیں ہیں، جذبات ہیں بس حقوق نہیں! ہم خود کو عظیم کہتے ہیں اور شاید واقعی عظیم ہیں عظمت کی اس قسم میں جس کا تعلق قناعت، خاموشی اور بے بسی سے ہو۔
ہم وہ لوگ ہیں جو ہر الیکشن میں ووٹ ڈالتے ہیں، جلوس نکالتے ہیں، نعرے لگاتے ہیں، پھر پانچ سال تک ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھ جاتے ہیں اور سوچتے ہیں: "شاید اگلی بار کوئی معجزہ ہو جائے!" حالانکہ ہم بھول جاتے ہیں کہ جو قوم خود کو جگانے کی کوشش نہ کرے، اس پر معجزے بھی اثر نہیں کرتے۔ ہم گزشتہ 77 برس سے وفاق سے ڈسے جا رہے ہیں مگر ہر بار ڈسنے کے عمل سے بے خبر ہو کر پھر سے انہیں سے امیدیں لگائے محبت کی پینگیں بڑھانے ہیں اور امیدیں لئے انکی گود میں سر رکھتے ہیں اب انکی مرضی ہے گود میں سر کے ساتھ کیسے کھیلیں وفاق میں موجود کھلاڑی اس کھیل کے ماسٹر مائنڈ ہیں وہ ہر طرف کے کھیل کے ہنر سے بہ خوبی باخبر ہیں اور کھیلنے کے فن کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں تو 77 برس سے یہ گلگت بلتستان کی عوام کے جذبات سے خوب کھیلتے آئے ہیں اور مزید کھیلنے کے لئے پر امید ہیں۔
ہم استوری ہوں یا بلتی، گلگتی ہوں یا ہنزائی سب ایک جیسی محرومی کے اسیر ہیں۔ ہم اتنے صابر ہیں کہ اگر دو وقت کی روٹی کے بجائے ایک وقت کا خواب بھی نصیب ہو جائے، تو ہم سجدۂ شکر بجا لاتے ہیں۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ ہم "دل کے قریب" ہیں اور ہم خوش ہو جاتے ہیں کہ شاید دل کے قریب ہونا آئینی حقوق سے بڑا شرف ہے۔ ہمیں پتا ہے کہ ہمارے پاس نہ حق ہے، نہ اختیار، مگر پھر بھی ہم شکر کرتے ہیں۔ شاید اسی شکرنے ہمیں اپنی حالت سے بے خبر کر دیا ہے۔
جب کبھی ہم اپنے حق کی بات کرتے ہیں، تو سب سے پہلے ہم خود ہی شرمندہ ہو جاتے ہیں کہ کہیں ہمیں غدار نہ کہا جائے، کہیں ہمیں فتنہ پرور نہ سمجھا جائے، کہیں ہمیں سوشل میڈیا پر کوئی تنقید کا نشانہ نہ بنا دے! سو ہم نے خاموشی کو وفاداری کا نام دے دیا ہے اور احتجاج کو گناہ سمجھ لیا ہے۔ ہم وہ لوگ ہیں جو آٹے، چینی، تیل کی سبسڈی پر خوش ہو جاتے ہیں، مگر کبھی یہ سوال نہیں کرتے کہ عزت، اختیار اور آئینی حقوق کی سبسڈی کب ملے گی؟
ہمیں وقتی ریلیف تو چاہیے، مگر مستقل انصاف نہیں۔ ہم اپنے بچوں کو ڈاکٹر، انجینئر، پروفیسر بنانے کے خواب دیکھتے ہیں اور جب وہی بچے بازاروں میں چھوٹی موٹی نوکریاں کرتے دکھائی دیتے ہیں، تو ہم کندھے تھپتھپا کر کہتے ہیں: "بیٹا، محنت کا کوئی نعم البدل نہیں۔ ہمیں بخوبی علم ہے کہ ہم ایک متنازعہ حیثیت رکھتے ہیں۔ ہر عید پر ہم امید کرتے ہیں کہ شاید اب کی بار قربانی سے بچ جائیں گے، مگر پھر بھی ہر بار قصائی کے سامنے بیٹھنے کو تیار ہو جاتے ہیں وہ بھی خوشی خوشی، جیسے کوئی بادشاہ تاجپوشی کے لیے بیٹھا ہو! ۔
ہمارے اندر یہ عجیب غیرت ہے کہ جب کوئی غیر مقامی افسر، بیوروکریٹ یا نمائندہ ہمارے سروں پر بٹھایا جاتا ہے، تو ہم تالیاں بجاتے ہیں۔ ہم خوش ہوتے ہیں کہ چلو کوئی تو آیا ہے جو ہمیں چلا سکے گا! گویا ہم خود اپنے آپ کو چلانے کے اہل ہی نہیں۔ ہم نے احتجاج کو گستاخی بنا دیا ہے اور سوال کرنے کو بےادبی۔ ہم نے اپنے آئینی، قانونی اور انسانی حقوق کو ایسے دفن کر دیا ہے جیسے وہ کوئی شرمناک راز ہوں۔
ہم وہ قوم ہیں جو مسجدوں میں دعائیں مانگتے ہیں کہ یااللہ ہمارے حالات بدل دے! اور جب اللہ کہتا ہے خود بھی کچھ کرو! ۔ تو ہم کہتے ہیں: "اللہ کی رضا یہی ہے! اسلام آباد کے ایئرکنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ کر جب ہمارے مستقبل کے فیصلے ہوتے ہیں، تو ہم خوش ہوتے ہیں کہ ہمارے نام پر کوئی تو مصروف ہے کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کیا واقعی ہم دنیا کی خوش نصیب ترین قوم ہیں؟ یا خوش فہمی کی سب سے بڑی مثال؟ ہم اپنی محرومی پر ماتم بھی کرتے ہیں اور اس پر فخر بھی۔ ہم اپنے زخموں کو عزت کا تمغہ بنا کر سینے سے لگا چکے ہیں۔
گلگت ہو یا بلتستان، استور ہو یا نگر سب کا حال ایک سا ہے۔ ہم صبر کے ولی ہیں، امید کے شہنشاہ اور اپنی بربادی کے خود ساختہ معمار! اب بھی وقت ہے ہم بیدار ہو جائیں، خوابوں سے حقیقت کی طرف آئیں اور آئندہ نسلوں کو وہ نہ دیں جو ہمیں ملا: صرف انتظار، صرف امید، صرف خاموشی۔

