Tuesday, 30 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shair Khan
  4. Riyasat e Mafad Aur Awam Ki Shikasta Saansen

Riyasat e Mafad Aur Awam Ki Shikasta Saansen

ریاستِ مفاد اور عوام کی شکستہ سانسیں

یہ محض ایک سیاسی شکوہ نہیں یہ ایک عہدِ زخم خوردہ قوم کی روداد ہے۔ وہ قوم جس کے کندھوں پر کبھی امید کے پرچم رکھے گئے تھے اور آج انہی کندھوں پر قرض بھوک اور خوف کے بوسیدہ بوجھ لاد دیے گئے ہیں۔ یہ کیسا عجب ملک ہے جہاں سیاست عبادت نہیں رہی سودا بن چکی ہے بلکہ لوٹ مار کا بازار بن چکی ہے جہاں وردی ریاست کی محافظ نہیں طاقت کی شریک بن بیٹھی ہے جہاں پارلیمنٹ قومی آواز نہیں مفادات کی منڈی ہے اور جہاں عوام صرف ووٹ نہیں قربانی ہیں۔

یہ سچ ہے کہ سیاسی جماعتیں اب نظریات نہیں بیچتیں، مراعات خریدتی ہیں کل جو ایک دوسرے کو غدار کہتے تھے آج دسترخوانِ اقتدار پر ہم نوالہ ہم پیالہ ہیں جمہوریت یہاں نظام نہیں نعرہ ہے اور نعرے پیٹ نہیں بھرتے۔ عوام کے بچوں کے ہاتھ میں کتاب نہیں خالی پیالہ ہے اور رہنماؤں کے بچوں کے ہاتھ میں غیر ملکی پاسپورٹ ہے۔ ادارہ اب طاقت کے توازن کا فیصلہ ساز بن چکا ہے بلکہ فرعون کا ویژن بن چکا ہے۔

دبا دو، مار دو، اٹھا دو اور باعث عبرت بنادو۔ جب بندوق سیاست کے شانے پر ہاتھ رکھ دے تو پھر آئین کاغذ بن جاتا ہے اور عوام محض تماشائی۔ یہاں فیصلے فائلوں میں نہیں فون کالز میں ہوتے ہیں اور وہ کالز اکثر بحرِ اوقیانوس کے اُس پار سے آتی ہیں۔ ہم نے خودمختاری کو ایک تقریری لفظ بنا دیا ہے استعمال کے قابل نہیں صرف تلاوت کے لائق۔ ہر نیا چیف آتا ہے تو یوں لگتا ہے جیسے تعارف واشنگٹن میں ہوتا ہے اور حلف اسلام آباد میں پالیسیاں قومی مفاد سے جنم نہیں لیتیں۔

عالمی خوشنودی سے پیدا ہوتی ہیں کبھی دہشت گردی کے نام پر جنگ کبھی معیشت کے نام پر غلامی اور ہر بار لاشیں اس قوم کی منافع کہیں اور کا ادھر ملک میں آٹے کی قطاریں ہیں ادھر لندن دبئی، نیویارک میں جائیدادوں کی بہاریں یہاں ماں دوا کے پیسے نہ ہونے پر بیٹے کو روتے دیکھتی ہے یا زہر دیکر مار دیتی ہے وہاں ریاستی خزانوں سے پلنے والی عیاشیاں ہیں یہ کیسی ترقی ہے جس میں عوام مزید پسماندہ اور اشرافیہ مزید محفوظ ہو جاتی ہے۔

سچ تو یہ ہے کہ اس ریاست کا خون اب عوام نہیں مفادات پیتے ہیں سب کے منہ کو لہو لگ چکا ہے کسی کو اقتدار کا کسی کو طاقت کا کسی کو عالمی سرپرستی کا اور جو بیچ میں کچلا جا رہا ہے وہ عوام ہیں خاموش، مجبور اور مسلسل تھکتے ہوئے۔

کیا خوشحالی ممکن ہے نہیں جب تک سیاست ایمان نہ بنے سودا رہے گی نہیں جب تک ریاست طاقت کے توازن پر نہیں قانون کے وقار پر کھڑی نہ ہو۔ جب تک فیصلے قوم کے اندر سے نہیں باہر کے اشاروں سے آئیں گے۔

یہ تحریر بغاوت نہیں نکلا نفرت ہے بلکہ اندھوں کے لئے بینائی ہے اور بینائی کا مسئلہ یہ ہے کہ جب آنکھ کھلتی ہے تو زخم صاف دکھائی دیتے ہیں۔ قومیں اسی لمحے زندہ ہوتی ہیں جب وہ سچ دیکھنے کی ہمت کر لیں اور اس سچ کا بوجھ اٹھانے کا حوصلہ بھی مگر یہاں سچ بولنے والوں کا سچ کڑوا لگتا ہے کیونکہ سچ جھوٹ کا نقاب اتار دیتا ہے رو جھوٹوں کی اصلیت کھل جاتی ہے اور پھر یہ بے شرم معافی مانگیں کی بجائے سچ بولنے والوں پر قہر و غصب ڈھاتے ہیں آج کتنے صحافی اس غضب کا نشانہ بنے بے روزگار بیٹھے ہیں بہت ہی تکلیف میں ہیں انکو پوچھنے والا نہیں۔

Check Also

Insani Sehat Ka Raz, Muhammad Ke Qadmon Mein (3)

By Amir Mohammad Kalwar