Qaumi Ittehad Pakistan Ki Baqa Aur Taraqi Ka Wahid Hal Hai
قومی اتحاد پاکستان کی بقا اور ترقی کا واحد حل ہے

پاکستان اس وقت تاریخ کے ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے معاشی بحران، سیاسی عدم استحکام، دہشت گردی کی بحالی اور اداروں کے درمیان توازن کی کمی نے ملک کو ایسے چیلنجز سے دوچار کر رکھا ہے جو ذاتی یا جماعتی مفادات سے بالاتر ہو کر قومی سطح پر سوچنے اور عمل کرنے کا تقاضا کرتے ہیں۔ ایک چارٹر آف پولیٹکس کو عملی جامع پہنانے کی ضرورت ہے تاکہ سیاسی پختگی، برداشت اور استحکام کو فروغ دیا جا سکے۔
یہ عمل چارٹر آف پولیٹکس اس حقیقت کی عکاس ہیں کہ ملک کی موجودہ صورتحال میں تصادم اور مقابلہ بازی کی بجائے مکالمہ اور اتفاق رائے ہی واحد حل ہے پاکستان کی تمام بڑی سیاسی جماعتیں جو قومی اسمبلی اور سینیٹ میں باقاعدہ نمائندگی رکھتی ہیں جن میں پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)، متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم)، جمعیت علمائے اسلام (ف) اور دیگر چھوٹی جماعتیں شامل ہیں کو وقت کی اہم ترین ضرورت کے تحت ایک مشترکہ ایجنڈے پر اکٹھا ہونا چاہیے۔
عمران خان اور تحریک انصاف سمیت تمام قیادت کو یہ حقیقت تسلیم کرنی چاہیے کہ ملک جس نازک مرحلے سے گزر رہا ہے وہاں ذاتی انا، جماعتی سیاست یا انتقامی کارروائیاں قومی مفاد کے لیے زہر قاتل ہیں قومی مفاد کو ترجیح دینا اب وقت کی ضرورت ہے عسکری قوت کو سیاست پر مداخلت سے روکنا اور اپنے ڈومین میں رہ ملک کی حفاظتی معمور پر اپنی خدمات تک محدود کرنا جمہوری عمل کے لئے ضروری ہے۔ آج جمہوریت صرف ناں کی ہے تسلط آمریت کا ہے جسکی وجہ سے ملک عدم استحکام سے دوچار ہے دن بدن ملکی معیشت بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے معیشت کی حالت تشویشناک ہے۔
آئی ایم ایف کی حالیہ رپورٹس کے مطابق کرپشن اور ایلیٹ کیپچر کی وجہ سے ملک کو جی ڈی پی کا 5 سے 6 فیصد تک نقصان ہو رہا ہے۔ مہنگائی، بیروزگاری، قرضوں کا بوجھ اور بیرونی دباؤ نے عام آدمی کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ سیاسی عدم استحکام نے ترقیاتی منصوبوں کو متاثر کیا ہے جبکہ ریاستی اداروں کے کردار کو واضح اور متوازن سمت میں لانا ضروری ہے تاکہ ادارے اپنے آئینی دائرہ کار میں رہ کر ملک کی خدمت کریں۔ معیشت، سیاست اور ترقی کو راہ راست پر لانے کے لیے ایک مشترکہ قومی ایجنڈا کی ضرورت ہے جس میں تمام اسٹیک ہولڈرز شامل ہوں مجھے پختہ یقین ہے کہ آئندہ سال تک تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے سربراہان ایک ہی اسٹیج پر نظر آئیں گے حالات کا تقاضا یہی ہے۔
حالیہ بیانات میں حکومت کی طرف سے اپوزیشن کو مکالمے کی دعوت۔ بجٹ سے پہلے مذاکرات کی پیشکش اور سیاسی چارٹر کی بات اسی سمت کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ اگر اتفاق رائے پیدا ہوگیا تو واقعی ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے پاکستان ایک نئے دور میں داخل ہونے والا ہے ایک ایسا دور جہاں تصادم کی بجائے تعاون انتقام کی بجائے مفاہمت اور تقسیم کی بجائے اتحاد غالب ہو۔
یہ وقت ہے کہ تمام جماعتیں ذاتی مفادات کو پس پشت ڈال کر قوم کے لیے کھڑی ہوں ایک قومی گرینڈ ڈائیلاگ۔ مشترکہ اقتصادی اصلاحات اور اداروں کے توازن کی بحالی ہی پاکستان کو بحرانوں سے نکال سکتی ہےاگر ہم اب بھی نہ جاگے تو تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ محض حکومتوں کی تبدیلی کی داستان نہیں بلکہ یہ طاقت فریب، مفاہمت اور مجبوریوں کا وہ طویل سفر ہے جس میں جمہوریت اکثر تماشائی بنی رہی اور اصل فیصلے بند کمروں میں ہوتے رہے۔ مسلم لیگ ہو یا پیپلز پارٹی، مذہبی جماعتیں ہوں یا وقتی اتحادی سب نے کسی نہ کسی موڑ پر اسٹیبلشمنٹ کے سائے میں پناہ لی اور یوں مارشل لا اور سیاست کا چولی دامن کا ساتھ قائم رہا جب جرنیلوں کو سہارے کی ضرورت پڑی سیاست دان حاضر ہوئے جب سیاست دانوں کو اقتدار چاہیے تھا جرنیل کے قدموں میں گر گئے اور یوں قوم ہر بار وعدوں نعروں اور فریب کے درمیان پس کر رہ گئی۔
نواز شریف نے ایک لمحے کو مارشل لا کو للکارا ضرور مگر طاقت کے گھیراؤ نے اسے پھر اسی نظام کا حصہ بنا دیا پیپلز پارٹی محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد نظریاتی مزاحمت سے مفاہمت کی راہ پر آ گئی مذہبی سیاست اخلاقی خطبات میں الجھی رہی اور کرپشن نے معاشرے کو اس حد تک خوفزدہ کر دیا کہ لوگ حق کے بجائے تحفظ کے متلاشی بن گئے پھر عمران خان آیا ایک ایسا تجربہ جسے خود اسٹیبلشمنٹ نے جنم دیا۔ مگر جب وہ آئینہ دکھانے لگا تو یہی تجربہ ان کے لیے خوف کی علامت بن گیا اسے جمہوریت کا دشمن ثابت کرنے کا منصوبہ اتنا طویل اور عریاں تھا کہ خود منصوبہ سازوں کو اپنی بدنمائی کا احساس ہونے لگا۔ طالبان ہوں یا ٹی ٹی پی لشکر جھنگوی ہو یا دیگر شدت پسند گروہ یہ سب اسی حکمتِ عملی کی پیداوار تھے جس میں ضرورت کے تحت "ہیرو" تراشے گئے اور وقت ختم ہونے پر مٹا دیے گئے پاراچنار، گلگت بلتستان، بلوچستان ہر خطہ خون سے رنگا گیا اور ہر بار الزام نامعلوم پر ڈال کر ریاست بری الذمہ ہوگئی۔
کیا ملک اسی دائرے میں گھومتا رہے؟ یہی وہ مقام ہے جہاں تاریخ ہمیں ایک آخری موقع دے رہی ہے اب واحد راستہ قومی اتفاقِ رائے ہے آج پاکستان جس نازک موڑ پر کھڑا ہے، وہاں ذاتی انا، جماعتی ضد اور ماضی کی دشمنیاں قوم کے لیے زہرِ قاتل بن چکی ہیں وقت کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ۔۔
پارلیمنٹ اور سینیٹ میں نمائندگی رکھنے والی تمام سیاسی جماعتیں ایک مشترکہ قومی ایجنڈے پر ایک پلیٹ فارم پر اکٹھی ہوں ایجنڈا واضع ہو۔
معیشت کو سیاسی یرغمالی بننے سے آزاد کیا جائے۔
ریاستی اداروں کے کردار کی آئینی حد بندی کی جائے۔
پارلیمنٹ کو حقیقی فیصلہ ساز بنایا جائے۔
احتساب کو انتقام کے بجائے اصول بنایا جائے۔
خارجہ اور داخلی سلامتی پالیسی کو پارلیمنٹ کے ماتحت لایا جائے۔
عمران خان اور تحریکِ انصاف سمیت تمام قیادت کو یہ حقیقت سمجھنی ہوگی کہ اب یہ میں یا تم کی سیاست نہیں بلکہ ہم یا تباہی کا سوال ہے مجھے پورا یقین ہے اور یہ محض خواہش نہیں بلکہ حالات کا منطقی نتیجہ ہے کہ آئندہ ایک سال کے اندر اندر پاکستان کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے سربراہان ایک ہی اسٹیج پر نظر آئیں گے۔
اس لیے نہیں کہ وہ ایک دوسرے سے محبت کرنے لگیں گے بلکہ اس لیے کہ حالات انہیں مجبور کر دیں گے پاکستان ایک نئے دور میں داخل ہونے والا ہے۔ یا تو یہ دور اتفاقِ رائے کا ہوگا یا پھر تاریخ ہمیں ایک اور ناکامی کے باب میں دفن کر دے گی اگر اس بار بھی ہم نے سچ، آئین اور عوام کے ساتھ کھڑے ہونے کا حوصلہ نہ کیا تو پھر الزام دینا بھی بے معنی ہو جائے گا۔ اگر یہ قوم اور اس کی قیادت اکٹھی ہوگئی تو واقعی پاکستان کی تقدیر بدلی جا سکتی ہے نہیں تو تباہی ہمارا مقدر بنے گی۔ اللہ ہمارے سیاستدانوں، عسکری قوتوں کو ھدایت کے ساتھ ہمت و جرات دے کہ وہ اپنی اپنی زمداریاں ایمانداری سے پوری کریں۔
پاکستان زندہ باد

