Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shair Khan
  4. Qaseeda Goi Qatil Ki

Qaseeda Goi Qatil Ki

قصیدہ گوئی قاتل کی

غزہ کی ماؤں کی آہ، ایران کے شہیدوں کا خون اور کشمیر کے زخمی بچوں کی چیخیں زمین سے آسمان تک گونج رہی ہیں۔ لیکن زمین پر ایک عجیب تماشا جاری ہے وہاں جہاں کبھی امتِ مسلمہ کے محافظ کھڑے ہوتے تھے اب شکریہ ٹرمپ اور قصیدہ امریکہ کی صدائیں گونج رہی ہیں۔ امن کے پرچم لہراتے ہاتھ درحقیقت انہی ہاتھوں کو چوم رہے ہیں جن سے خون ٹپک رہا ہے۔

کہاں کا امن؟ کس کا امن؟ اور کس قیمت پر؟

جس وقت ٹرمپ ایران پر حملے کے دہانے پر کھڑا ہے جب وہ ایرانی سپریم لیڈر کے قتل کی بات فخر سے کرتا ہے جب اسرائیل غزہ کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے درپے ہے تو پاکستان جیسے ملک کی جانب سے ایسے بیانات دینا کہ ٹرمپ دنیا میں امن کے سب سے بڑے علمبردار ہیں یہ محض ایک احمقانہ لغزش نہیں بلکہ شعوری قومی بے حسی کا ثبوت ہے۔ کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ ٹرمپ کی صدارت کے دوران مشرق وسطیٰ میں کون سا امن آیا؟

غزہ میں مرنے والوں کی قبریں اور شام کی خاک میں رُلتے بچوں کی چیخیں اس امن کی گواہی دے رہی ہیں۔ ایران پر معاشی پابندیاں، ٹارگٹ کلنگ اور پورے خطے کو غیر مستحکم کرنے کی سازشیں یہ سب اسی امن کا حصہ ہیں؟ پھر پاکستان کی پالیسی ساز قیادت (یا جو خود کو اس کا مالک سمجھتی ہے) کیوں قاتل کی پیٹھ تھپتھپا رہی ہے؟

افسوس اس بات پر نہیں کہ امریکہ کی خوشنودی حاصل کی جا رہی ہے وہ تو ایک پرانا کھیل ہے۔ افسوس اس پر ہے کہ یہ سب کچھ عوام کی مرضی کے بغیر، پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر اور کسی اخلاقی یا نظریاتی اصول کے بغیر کیا جا رہا ہے۔

کیا کوئی جمہوری ریاست اپنے قاتل کی قصیدہ گو بن جاتی ہے؟ کیا ہم نے ان ستر ہزار سے زائد شہدا کی لاشوں کو فراموش کر دیا جو امریکہ کی نام نہاد دہشتگردی کے خلاف جنگ میں گرے؟ کیا ان شہید بچوں کی مائیں آج بھی امن کے اس تمغے پر فخر کر سکیں گی جو کسی اور کے خنجر سے ان کے کلیجے چاک کرنے کے بعد ہمیں پہنایا گیا؟

ایرانی قوم جب فلسطینیوں کے حق میں پاکستان کی سالمیت کے لیے اور کشمیر کے مظلوموں کے لیے آواز بلند کرتی ہے تو ان کی پارلیمنٹ میں شکریہ پاکستان کے نعرے گونجتے ہیں۔

مگر ہم کیا کرتے ہیں؟ ہم ان کے دشمن کے دشمن کے ساتھ بغل گیر ہو کر ان کے زخموں پر نمک چھڑکتے ہیں۔

یہ صرف ایک خارجی غلطی نہیں یہ تاریخی بے وفائی ہے یہ فیصلہ کسی عوامی پلیٹ فارم پر نہیں ہوا۔ یہ نہ کسی عوامی نمائندے کی تجویز تھی نہ کسی سینیٹ یا پارلیمان میں بحث کا موضوع ایک جرنیل نے جسے آئین کی پاسبانی کے لیے منتخب کیا گیا تھا وہی پرانی تاریخ دہرائی بندوق سے خارجہ پالیسی لکھ دی گئی اور ملک کو ایک بار پھر عالمی کھیل کا مہرہ بنا دیا گیا۔

آج اگر پاکستان کسی قاتل جنگی مجرم یا سامراجی طاقت کو امن کا پیامبر قرار دیتا ہے تو کل وہ دن دور نہیں جب دنیا ہمیں بھی منافقت اور بے غیرتی کی علامت سمجھے گی۔ امن ضرور چاہیے لیکن انصاف کے ساتھ غیرت کے ساتھ، خودداری کے ساتھ امن قاتلوں کی قصیدہ گوئی سے نہیں، مظلوموں کے حق میں آواز بلند کرنے سے آتا ہے۔

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam