Polo Badshahon Ka Khel
پولو بادشاہوں کا کھیل

پولو جسے بادشاہوں کا کھیل کہا جاتا ہے دنیا کے قدیم ترین کھیلوں میں سے ایک ہے اس کی جڑیں ہزاروں سال پرانی ہیں جو نہ صرف تفریح بلکہ جنگی تیاری اور شاہی شان و شوکت کا استعارہ تھیں۔ گلگت بلتستان جیسے خطے میں جہاں پولو ثقافت کا لازمی حصہ ہے اس کی تاریخ کو سمجھنا ضروری ہے تاکہ ہم اس کی اصل روح بہادری، احترام اور مہارت کو برقرار رکھ سکیں آئیے، تفصیل سے دیکھتے ہیں کہ یہ کھیل کیسے وسطی ایشیا کی چراگاہوں سے شندور کی بلندیوں تک پہنچا۔
پولو کی ابتدا وسطی ایشیا کے nomadic قبائل سے ہوئی جہاں یہ کھیل گھوڑوں کی مہارت اور جنگی تربیت کا ذریعہ تھا ہر ٹیم میں 100 تک سوار ہوتے تھے اور میچ میدانِ جنگ کی نقل ہوتا تھا۔ یہ قبائل جب ہجرت کرتے تو کھیل ان کے ساتھ چلتا۔ 600 قبل المسیح سے 100 عیسوی تک یہ پارسی سلطنت (موجودہ ایران) پہنچا جہاں یہ قومی کھیل بن گیا۔ پارسی بادشاہوں اور نخبگانِ فوج نے اسے اپنایا یہاں تک کہ خسرو دوم پرویز اور ان کی ملکہ نے بھی کھیلا اصفہان میں اس کی ابتدائی جگہیں ملی ہیں۔ پارسیوں نے اسے شاہی درباروں اور فوجی اکیڈمیز میں پھیلایا جہاں یہ بہادری اور نظم کی علامت تھی۔
پارس سے پولو عرب، تبت، چین اور جاپان پہنچا۔ تبت میں اس کا نام پولو بالٹی زبان میں پولو کا مطلب گیند سے ماخوذ ہوا۔ 821 عیسوی میں چین اور جاپان کے درمیان میچ ہوئے۔ تیرہویں صدی میں مسلمان حملہ آوروں نے ہندوستان لایا، جہاں یہ مغل بادشاہوں کا شوق بنا۔ منی پور (آسام) میں مقامی شکل تھاپو کھیلی جاتی تھی، جو جدید پولو کی بنیاد بنی برصغیر میں جدید پولو کا آغاز 1859ء میں سیلچار پولو کلب (آسام) سے ہوا، جہاں برطانوی افسر لیفٹیننٹ جو شیریر نے مقامی میچ دیکھ کر کہا ہمیں یہ کھیل سیکھنا ہوگا۔ 1863ء میں کلکتہ پولو کلب (دنیا کا قدیم ترین فعال کلب) بنا۔ 1866ء میں 10ویں ہسارس کے کیپٹن نے دیکھا اور 1875ء میں ہرلنگھم کلب نے قوانین وضع کیے 4 کھلاڑی فی ٹیم، گیند کو مالٹ سے گول میں ڈالنا۔ یہ کھیل انگریز فوجوں میں پھیلا، پھر انگلینڈ (1869)، امریکہ (1876، جیمز گورڈن بینیٹ نے متعارف کیا ارجنٹائن (1872 جو اب عالمی طاقت ہے تک۔ اولمپکس میں 1900 سے 1936 تک۔
پاکستان کے شمالی علاقوں میں پولو کی جڑیں صدیوں پرانی ہیں یہ جنگی مہارت کی نشانی تھی۔ چترال میں 1911ء میں برطانوی پولیٹیکل ایجنٹ نے باقاعدہ گراؤنڈ بنایا گلگت بلتستان میں یہ ثقافتی فخر ہے جہاں ہر بستی کا گراؤنڈ ہے۔ شندور پولو فیسٹیول دنیا کا بلند ترین گراؤنڈ، 3700 میٹر، 1936ء سے) اس کی عمدہ مثال ہے۔ برطانوی پولیٹیکل ایجنٹ کرنل ایوین ہی کوب نے 1930ء میں شروع کیا۔ 1935ء میں نیت قبول حیات کاکاخیل نے مس جنالی" (چاندنی رات کا گراؤنڈ) بنایا۔ چترال (خیبر پختونخوا) بمقابلہ گلگت بلتستان کی ٹیمیں، فری سٹائل (کوئی امپائر نہیں، جسمانی رابطہ جائز، 6 کھلاڑی + ریزرو) کھیلتی ہیں۔ جولائی میں 3 روزہ فیسٹیول، لوک موسیقی، رقص اور سیاحت سمیت۔ یہ قبائلی اتحاد اور مہمان نوازی کی علامت ہے۔
آج 80+ ممالک میں کھیلا جاتا ہے، فیڈریشن آف انٹرنیشنل پولو (1982) منظم کرتی ہے۔ ارجنٹائن قائد ہے (قومی کھیل)، امریکہ میں فاسٹ ہٹنگ سٹائل نے انقلاب لایا۔ خواتین بھی کھیلتی ہیں۔ لیکن گلگت جیسے علاقوں میں فری سٹائل اب بھی اصل روح زندہ ہے مگر آج گراونڈ میں بدتہذیبی دیکھ کر دل زخموں سے چور چور ہوا
پولو کی تاریخ ہمیں سکھاتی ہے کہ یہ طاقت کا تماشہ نہیں، بلکہ احترام اور برادری کا کھیل ہے۔ گلگت پولو ٹیم جیسے واقعات اس روایات کو روندتے ہیں مگر شندور جیسی جگہیں امید دیتی ہیں کہ اصل روح زندہ رہے گی کھیل کو کھیل رکھیں!
کھیل ہمیشہ بہادری، برداشت، مہارت اور کھیل کے آداب سکھاتا ہے لیکن جب کھلاڑی خود ہی اصول روندنے لگیں تو پھر وہ کھیل نہیں رہتا صرف طاقت کا تماشہ بن جاتا ہےگلگت پولو ٹیم کا رویہ نہ صرف مخالف ٹیم کے لیے غیر منصفانہ تھا بلکہ پورے خطے کی مثبت شناخت پر سوال بن گیا ہے اسکی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے جو جو کھلاڑی ڈسپلن کی خلاف ورزی میں ملوث ہے عوام کا مطالبہ ہے کہ ان کھلاڑیوں پر تا حیات پابندی لگا دی جائے تاکہ آئندہ کسی کو بدتہذیبی کرنے کی جرات نہ ہو۔
اگر یہی طرزِ عمل جاری رہا تو نقصان ٹیم کا نہیں پورے کھیل کا ہوگا ایسی حرکات کو روکنے اور ان کے خلاف کارروائی کرنا مقامی انتظامیہ اور کھیلوں کی تنظیموں کی بنیادی ذمہ داری ہے تاکہ کھیل کا میدان دوبارہ اصول احترام اور کھیل کی اصل روح کے ساتھ آباد ہو سکے۔ بادشاہوں کے کھیل میں اب گلی کوچے کے بدتہذیب لوگ شامل ہو چکے ہیں جنہیں نہ آداب کھیل کا علم ہے اور نہ ہی نظم و ضبط سے آشنائی ہے بد اخلاق کھلاڑیوں کی وجہ سے اس کھیل کا حسن تباہ ہو رہا ہے لہذا ضرورت ہے کہ ان کثرت بد تہزیب کھلاڑیوں پر تاحیات پابندی لگائی جائے۔

