Oont, Bail, Gaaye Aur Sarkon Par Pare Hue Qaum Ke Muammar
اونٹ، بیل، گائے اور سڑکوں پر پڑے قوم کے معمار

عید آ گئی ہر طرف رونق ہے بازار سجے ہیں، قصائی چھریاں تیز کر رہے ہیں اور ہم؟ ہم اس سماج کا وہ کڑوا سچ دیکھ رہے ہیں جسے قربانی نہیں، تذلیل کہتے ہیں۔ گلگت بلتستان میں 13 دن سے اساتذہ سڑکوں پر بیٹھے ہیں۔ بارش، دھوپ، سردی، مٹی، پولیس، بے حسی سب سہہ کر بھی یہ لوگ اپنی عزت کے لیے اپنے حق کے لیے اور اپنی قوم کے بچوں کے مستقبل کے لیے آواز بلند کر رہے ہیں۔ مگر افسوس! جواب میں حکومت کی طرف سے سکوتِ مرگ اور عوامی نمائندوں کی طرف سے اونٹ، بیل اور گائے!
امجد ایڈوکیٹ صاحب نے اونٹ عطا کر دیا شاید درباری دربار سے وفاداری کا فرض ادا کر رہا تھا۔
قاضی نثار صاحب نے بیل پیش کیا، حالانکہ یہ وہی قاضی ہیں جو خطبوں میں استاد کو روحانی باپ کہتے ہیں، مگر عمل میں ان کے ہاتھ بیل کی رسی سے بندھے دکھائی دیے رانا فرمان نے گائے عنایت کی، شاید اس نیت سے کہ استاد کو یہی چاہیے، ایک جانور جو عید پر ذبح ہو اور باقی سال خاموشی سے چرتا رہے۔ کیا واقعی اس معاشرے میں ایک استاد کی اتنی ہی عزت رہ گئی ہے؟
کیا اسکولوں کا بند ہونا، طلبا کی پڑھائی کا ضائع ہونا اور ہزاروں بچوں کا مستقبل برباد ہونا کسی کے ایجنڈے پر نہیں؟
کیا صرف قربانی کے جانور ہی توجہ کے مستحق ہیں اور جو انسان اپنی پوری زندگی دوسروں کو انسان بنانے میں صرف کر دے، وہ آج سڑک پر بیٹھ کر اپنے بچوں کی عید بھی قربان کرے؟
اور قاضی نثار صاحب! آپ تو ایک عالم دین ہیں کیا آپ بھول گئے کہ پہلا معلم خود خدا ہے؟ کیا آپ کو یہ یاد دہانی کروانا پڑے کہ علم کی قدر خود قرآن نے کی اور علم والے کے مقام کو فرشتوں سے بلند کیا؟ کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ کی اس بے حسی نے ثابت کر دیا کہ آپ کے خطبے صرف الفاظ ہیں، جن میں جذبہ، درد اور بصیرت کا فقدان ہے؟
اگر استاد کو اونٹ، بیل یا گائے دے کر خوش کرنا مقصود تھا تو معاف کیجیے گا، آپ نہ عالم ہیں، نہ رہبر، نہ خیر خواہ۔ کہنے کو آپ دین کے وارث ہیں مگر عمل میں آپ اُس سماج کے نمائندہ نکلے جسے استاد کا نہ مقام معلوم ہے نہ حق۔ کب تک ہم اس منافقت کو چھپاتے رہیں گے؟
کیا معاشرے کا ضمیر اتنا مر چکا ہے کہ اسے ایک احتجاج کرتا استاد بھی نظر نہیں آتا؟
کیا کرسی کی نرمی اتنی پیاری ہے کہ سڑک پر بیٹھا وہ شخص جو کل تمہارے بچوں کو شعور دے گا آج تمہیں بے حس اور ننگِ غیرت کہہ رہا ہے اور تم خاموش ہو؟ آج اگر یہ دھرنا ختم ہو بھی گیا، تو سوال باقی رہے گا قوموں کے معماروں کے ساتھ یہ سلوک کرنے والی حکومت، یہ معاشرہ اور یہ عوام کیا واقعی بچنے کے قابل ہے؟
قومیں توپوں سے نہیں، بے غیرتی سے ٹوٹتی ہیں اور ہم ٹوٹنے کے اس سفر پر گامزن ہیں۔

