Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shair Khan
  4. Ohda, Iqtidar Aur Ikhtiar

Ohda, Iqtidar Aur Ikhtiar

عہدہ، اقتدار اور اختیار

حضرت علیؑ کا قول ہے اختیار اور اقتدار ملنے سے انسان بڑا نہیں ہوتا بلکہ بے نقاب ہو جاتا ہے۔

اقتدار کا نشہ ہی اتنا دلفریب اور جادوئی نما ہے کہ برائی برائی نظر نہیں آتی گناہ بھی ثواب سمجھ کر کیا جاتا ہے۔ بلخصوص ہمارے ملک پاکستان میں اقتدار ایک نشہ بن چکا ہے ہیروئن والا نشہ جو شخص ہیروئن کا نشہ کرتا ہے جب اسکو نشہ نہیں ملتا ہے تو اسکی کیفیت ہیجانی ہوتی ہے پھر وہ اس نشے کے حصول کے لئے کچھ بھی کرنے کو تیار ہوتا ہے چاہے اسکے چوری کرنی پڑے ڈاکہ ڈالنا پڑے یا کسی کی جیب کاٹنی پڑے۔

وہ اس گری حرکت کو معیوب نہیں سمجھتا بلکہ اپنے کو دوام بخشنے کے لئے اس پر فخر محسوس کرتا ہے ہمارے ملک کی طرز حکمرانی کی سیم سیچویشن اس ہیروئن زدہ آدمی جیسی ہے جیسے وہ اپنے نشے کے حصول کے لئے سب کچھ کر گزرتا ہے اسکے لئے ملکی دفاعی نظام ہو یا ملکی سالمیت سبھی کو داٶ پر لگا دیتے ہیں اور اپنے نفسانی خواہشات کے حصول کےلئے صاحب مسند اقتدار حکمران جھوٹ مکاری کی سیاست کو اپنا ایمان کا حصہ سمجھتے ہیں۔

دنیا بھر میں اہم حکومتی عہدوں پر تعیناتی عوامی سطح پر زیر بحث آتی ہے۔ ہمارے ہاں البتہ یہ ضرورت سے زیادہ زیر بحث آتی ہے۔ اس کی وجہ سیاست میں ہماری حد سے زیادہ بڑی ہوئی دلچسپی ہے۔ تاہم یہ طالب علم ان طاقتور مناصب کا ایک دوسرا پہلو لوگوں کا سامنے رکھنا چاہتا ہے۔ کیونکہ یہ وہ پہلو ہے جو عام طور پر نگاہوں سے اوجھل رہتا ہے۔ نہ نظریات نہ عقائد کا پہلو ہوتا ہے بلکی شخصیت پرستی میں ہم ہر حد پار نظر کرتے ہیں بعض اوقات شخصیت پرستی میں جھوٹ کو سچ ثابت کرنا اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں جبکہ یہ لمحہ سوائے ہلاکت کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتا اپنی عاقبت اور اللہ کے ہاں رسوائی ہی رسوائی کا سبب بنتا ہے مگر ہمیں اسکا بلکل بھی ادراک نہیں شخصیت پرستی بھی ایک بہت بڑا نشہ ہے بلکہ بہت بڑی لعنت ہے اللہ ہم سبکو اس لعنت سے محفوظ رکھے۔

اس شخصیت پرستی میں ہم اتنے بٹ چکے ہیں کہ روز بھائی بھائی کے دست گریباں ہوتا نظر آتا ہے اس وبا شخصیت پرستی میں ہم چوروں لٹیروں اور ڈاکٶں کی سپورٹ کو ایمان کا حصہ سمجھ کر انجام دیتے ہیں جبکہ ہمیں صاف صاف نظرآرہا ہے کہ کہ یہ کرپٹ ہیں چور ہیں اور مکار ہیں مگر کیا کریں مخالفین بیشک حق پر ہیں مگر اسکے سامنے چور لٹیرے کو حاجی ثابت کرنا ہے اور اپنے نفس کی تسکین دینا ہے بیشک ایمان خراب ہوتا ہے تو ہوجائے اللہ نارض ہوتا ہے تو ہوجائے مگر اپنے نفس کو نارض نہیں کرنا۔

اِس دنیا میں عہدے کتنے ہی طاقتور کیوں نہ ہوں، قیامت کے دن یہ سب سے بڑی جواب دہی کا سبب بنیں گے۔ اس حقیقت کو رسول اللہ ﷺ نے اس طرح بیان فرمایا ہے کہ جو شخص دس یا اس سے زیادہ لوگوں کے معاملات کا ذمہ دار بنتا ہے وہ قیامت کے دن اللہ کی بارگاہ میں اس حال میں پیش ہوگا کہ اس کے ہاتھ اس کی گردن سے بندھے ہوئے ہوں گے جنہیں اس کی نیکی ہی کھول سکے گی ورنہ اس کے گناہ اسے ہلاک کر دیں گے۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ خاص طور بادشاہوں، جباروں اور متکبرین کا نام لے کر ان کو عالم غضب میں مخاطب کریں گے۔ اس کے بعد ان لوگوں کے ساتھ کیا ہوگا، اس کا اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ لوگوں کو ان عہدوں کی جواب دہی کا اندازہ ہوجائے تو ان کے دل سے ہر عہدے کی خواہش ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے گی۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ دنیا میں خدا سامنے نہیں آتا، عہدہ سامنے ہوتا ہے۔ عہدے کی طاقت سامنے ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ انسان خود کو جھوٹے بہانوں سے بھی بہلاتا ہے کہ میرے پیش نظر تو خدمت کرنا ہے۔ اگر کسی ظلم، زیادتی کا ارتکاب ہوا بھی تو سیاست میں تو یہ چلتا ہے۔ جھوٹ، سازش، دھوکہ دہی، وعدہ خلافی، حلف کی خلاف ورزی کے بغیر سے سیاست ہو نہیں سکتی۔

ایسے شخص کو بالکل بھی اندازہ نہیں ہوتا کہ وہ اقتدار نہیں ہلاکت کی کرسی پر بیٹھ رہا ہے۔ اقتدار کی کرسی پر بیٹھ کر نجات تو صرف وہی حکمران پائیں گے جنھوں نے حضرت یوسف، حضرت داؤد اور حضرت سلیمان کی طرح عدل اور خوف خدا کو اپنی زندگی بنائے رکھا یا پھر رسول اللہ ﷺ کی طرح پیٹ پر پتھر باندھ کر اور اپنے گھر والوں کو بھوکا رکھ کر غریب صحابہ کا پیٹ بھرا۔ یا پھر خلفائے راشدین کی طرح عدل کے آخری معیار قائم کرکے بھی خدا کی جواب دہی کے خوف سے لرزتے رہے۔

حضرت ابوبکرنے اپنے کاروبار اور ہر بنیادی ضرورت کو پس پشت ڈال کر رعایا کی خدمت کی۔ حضرت عمر مثالی عدل قائم کرکے بھی فرات کے کنارے ایک جانور کی موت پر خدا سے ڈرتے تھے۔ حضرت عثمان نے ساری طاقت کے باجود جان دے دی، مگر آگے بڑھ کر کسی پر تلوار نہیں چلوائی۔ حضرت علی نے دولت مند ترین ریاست کا خلیفہ ہونے کے باجود فقر کو اختیار کیا اور اس پر قائم رہے جو کی روٹی کھائی اور حصول انصاف کے لیے عدالت کے سامنے عام لوگوں کی طرح پیش ہوئے کبھی اپنے نفسانی خواہش کو اپنے اوپر حاوی نہیں کیا۔ ان سب مثالوں کے باوجود ساری حقیقت کو جاننے کے باوجود ہمارے حکمران کس خواہ و غفلت کا شکار بنے بیٹھے ہیں یہ کیوں نہ حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں یہ کیوں نہ خوف خدا کھاتے ہیں۔

باقی عام حکمرانوں کو تو بہرحال خدا کا سامنا کرنا ہوگا۔ وہ خدا جو ہر چیز کا مالک اور بادشاہ ہے۔ جس کے علم میں دلوں کے خیالات، تنہائی کے معاملات اور ظلم و ناانصافی سارے واقعات رہتے ہیں۔ اس روز کوئی حکمران خدا کے سامنے اپنے ظلم و زیادتی، جھوٹ و فریب، سازش و دھوکہ دہی، وعدہ خلافی اور حلف کی خلاف ورزی کا کوئی عذر پیش نہیں کرسکے گا۔

اس روز خدا ہر ظلم اور فریب کا حساب لے گا اور جب و ہ حساب لے گا تو حکمران خواہش کریں گے کہ کاش ان کی ماں نے ان کو جنا ہی نہیں ہوتا۔ کاش اقتدار ملنے سے پہلے ہی انھیں موت آچکی ہوتی۔ کاش خدا کے حضور پیش ہونے کے بجائے ان کا خاتمہ مٹی کی شکل میں ہوجاتا ہے۔ یہ ہے وہ المناک انجام جو آج کے ہر اقتدار کا مقدر ہے۔ عہدہ، اقتدار اور اختیار کے نشے میں چند خاندانوں نے پورا ملک اجاڑ دیا اپنی نسلیں یورپی میں عیاشی میں مگن ہے جبکہ قوم کے بچوں کو نسل در نسل غلامی کے طوق میں جکڑ کر رکھ دیا ہے کہیں سے حالات بہتری کی طرف جاتے دکھائی نہیں دے رہے۔

جمہور بے نامی جمہوریت کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں ہر طرف ہو کا عالم دکھائی دے رہا ہے اللہ اس ملک اور قوم کے ساتھ کھلواڑ کرنے والوں کی نسلیں تباہ کردے جس طرح انہوں نے ملک کو اجھاڑا عوام کو خودکشیوں پر مجبور کیا ہر انسان کی زندگی اجیرن کردی ہے اللہ مکافات عمل کو ہماری آنکھوں کے سامنے دہرا کر ان ظالموں کو نیا کے لئے باعث عبرت بنادے یہ ہماری دلی خواہش بھی ہے آرزو بھی ہے اور دعا بھی ہے۔

آج اقتدار کے بھوکوں کو اقتدار تو ملا مگر بہت بڑی طرح یہ بےنقاب بھی ہوئے ہیں مگر انہیں ذرا بھی شرم نہیں۔

Check Also

Bani Pti Banam Field Marshal

By Najam Wali Khan