Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shair Khan
  4. Neki Ke Chiragh Aur Gunah Ka Nach

Neki Ke Chiragh Aur Gunah Ka Nach

نیکی کے چراغ اور گناہ کا ناچ

رات کے آخری پہر آسمان پر ایک عجیب سی اداسی چھائی تھی، ہوا کے ہونٹ کانپ رہے تھے اور شہر کی گلیوں میں جیسے روشنی نے خود کو سیاہی میں لپیٹ لیا ہو۔ ایسا لگتا تھا جیسے اخلاق کی روح اپنے ہی شہر سے ہجرت کر گئی ہو اور پیچھے صرف گونجیں رہ گئی ہوں۔ طنز کی تضاد کی اور دکھ کی ہلکی ہلکی آہٹیں اسی سیاہی کے بیچ ایک بینر جھول رہا تھا، پرندے بھی اس منظر سے نظریں چرا لیتے اگر انہیں خبر ہوتی کہ انسان کس عجیب فریب میں جیتا ہے۔

بینر پر ایک مسکراہٹ ثبت وہی مسکراہٹ جو اسٹیج کی رنگین روشنیوں میں اپنے وجود کے آخری پردے بھی اتار دینے پر مجبور ہو جاتی ہے اور پھر اس بےلباسی کے دام سے جو دولت اُگتی ہے وہ دولت غریبوں کی آنکھ میں چاول کے چند دانے بنا کر رکھ دی جاتی ہے اور لوگ کہتے ہیں سچ مچ بڑی نیک بچی ہے کیا نیکی اب بازار میں تولی جاتی ہے؟ کیا خیر کا معیار تصویر کے زاویے، کیمرے کی فلیش اور سوشل میڈیا کے دل پہ لائیک کے نشان سے متعین ہوگا یا پھر وہی پرانا پیمانہ ابھی بھی کہیں مٹی کے نیچے سانس لے رہا ہے جسے ہمارا ضمیر کہتے تھے؟

کچھ لمحے تو ایسے لگتے ہیں جیسے نیکی اور گناہ دونوں نے لباس بدل لیا ہو، نیکی شرم سے دبک گئی ہو اور گناہ سرِعام قہقہہ لگا کر خدمت کا جھنڈا اٹھائے کھڑا ہو۔ اس فنکارہ کا فن ایک ایسا چراغ ہے جس کی روشنی نہیں محض دھواں اٹھتا ہے مگر اس دھوئیں میں وہ خیرات کے کچھ ڈھیر رکھ دیتی ہے اور لوگ سمجھتے ہیں کہ دھواں نہیں نور اٹھ رہا ہے۔ یہی وقت کا المیہ ہے گناہوں کی کمائی سے خیرات دینے والے خود کو شہیدِ خدمت سمجھتے ہیں اور تماش بین سچ اور فریب کی لکیر بھول جاتے ہیں ادھر خدا کی دنیا میں ایک اور اصول چلتا ہے۔

نیکی کی ٹہنی گناہ کی جڑ سے نہیں پھوٹتی طیب چیز سے ہی طیب پھل اگتا ہے اور ناپاکی سے خیر کی خوشبو نہیں اٹھتی۔ رات کی گہرائی میں کچھ سچائیاں انسان سے چھپ نہیں سکتیں۔ خدا کے آئینے میں نہ تصویر دھندلاتی ہے نہ زاویہ بدلتا ہے وہ جانتا ہے کہ نیکی کے پیچھے کون سا پردہ لٹکا ہے اور گناہ کے سامنے کون سی نقاب باندھی گئی ہے۔ آج جو خدمت کی گونج مائیک پر بلند ہوتی ہے کل یہی دھوکہ بوجھ بن کر دل پر اترتا ہے کیونکہ خیر نمائش کی محتاج نہیں اور گناہ اپنی خوبصورتی سے زیادہ دیر کسی کو بہلا نہیں سکتا کہانی یہی ہے گناہ اگر تاج پہن بھی لےتو اس کے ماتھے پر داغ باقی رہتا ہے۔

خیر اگر خاموش بھی ہو تو اس کے قدموں کی خوشبو پہچانی جاتی ہے ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ ہم بینر کی تصویر سے متاثر ہوں گے یا اس کے پیچھے کھڑے سائے سے ہم خدمت کی چمک دیکھیں گے یا اس پیسوں کی تاریکی کو سمجھ پائیں گے جو اس چمک کی بنیاد ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ نیکی کے چراغ اس وقت ہی روشن ہوتے ہیں جب گناہ کے ناچ سے فاصلے پر رکھے جائیں۔ ورنہ روشنی اور دھواں ایک ہی سا دکھنے لگتا ہےاور یہی انسان کا سب سے بڑا خسارہ ہے یہ تحریر نہیں یہ وہ دھیمی دستک ہےجو انسان کو اپنی روح کے دروازے تک لے جاتی ہے۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan