Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shair Khan
  4. Nai Karbala Bapa Hone Ko Hai

Nai Karbala Bapa Hone Ko Hai

نئی کربلا بپا ہونے کو ہے

جب بھی ماہِ محرم آتا ہے کربلا کی صدائیں دوبارہ زندہ ہو جاتی ہیں۔ یزیدیت کے خلاف حسینیت کی آواز وقت کے ہر ظلم پر تازیانہ بن کر گونجتی ہے۔ لیکن آج، 14 سو سال بعد لگتا ہے تاریخ خود کو دہرانے لگی ہے اس بار بھی یزیدی لشکر ہے اس بار بھی دریا بند ہیں اور اس بار بھی ایک حسینی نمائندہ ہے تنہا مگر سر جھکانے سے انکاری۔ ایران اس وقت دنیا کی سب سے بڑی استعماری طاقتوں کے نرغے میں ہے۔

مشرق سے مغرب تک طاقتور افواج تباہ کن ہتھیار، معیشت کا گلا گھونٹنے والی پابندیاں، پروپیگنڈے کی طوفانی یلغار اور سفارتی تنہائی یہ سب اس ایک ملک کو جھکانے کے لیے مجتمع ہو چکے ہیں لیکن حیرت ہے تعجب ہے، کہ ایران نہ صرف کھڑا ہے بلکہ للکار رہا ہے یہ صرف عسکری طاقت نہیں یہ ایمانی غیرت ہے، یہ ولایتی بصیرت ہے، یہ ایک مردِ مؤمن امام خامنہ ای کی قیادت کا کرشمہ ہے۔

ایران کے ارد گرد 57 اسلامی ممالک ہیں۔ ہر ایک کی زبان پر کلمہ ہر ایک کے آئین میں قرآن، ہر ایک کے پرچم میں چاند تارا، لیکن دلوں میں خوف آنکھوں میں بے حسی اور قدموں میں لرزش ہے۔ کوئی چیخ نہیں رہا کوئی للکار نہیں رہا۔ اقوامِ متحدہ کے اجلاس میں صرف مذمت کی گھسی پٹی تقاریر، سوشل میڈیا پر چند سطورِ افسوس اور زمینی حقائق میں مجرمانہ خاموشی یہ سب کوفیوں کی یاد تازہ کرتے ہیں۔

کیا یہ وہی امتِ مسلمہ ہے جسے قرآن نے ایک جسم قرار دیا تھا؟ کیا یہ وہی مسلمان حکمران ہیں جنہیں محمد عربی ﷺ نے امت کا محافظ اور خیرخواہ بنایا تھا؟ افسوس اب امت کے محافظ صرف اپنے اقتدار کے تحفظ میں مصروف ہیں اور مظلوم کا ساتھ دینے کے بجائے ظالم کی صف میں کھڑے ہیں تماشائی بن کر ایران کی مثال آج کے حسین کی سی ہے۔ نہ جھکتا ہے، نہ بکتا ہے۔ نہ ظلم کو تسلیم کرتا ہے نہ منافقت کو اپناتا ہے۔ وہ صرف خدا کی مدد پر یقین رکھتا ہے اور عاشور کے وارثوں کی طرح ہیھات منّا الذلۃ کا نعرہ لیے آگے بڑھ رہا ہے۔

امام خامنہ ای، ایک مردِ مجاہد، جن کے لہجے میں علیؑ کی للکار، جن کے فیصلوں میں حسنؑ کی حکمت اور جن کی استقامت میں حسینؑ کی قربانی کی جھلک نظر آتی ہے۔ وہ دنیا کو بتا رہے ہیں کہ اگر دنیا یزید بن جائے تب بھی حسین کی راہ باقی رہتی ہے اب فیصلہ امت کو کرنا ہے کیا وہ کوفہ بنے گی یا کربلا؟ کیا وہ تماشائی رہے گی یا علمبردار؟ کیا وہ یزید کے خیمے میں ہوگی یا حسین کے قافلے میں؟

تاریخ خود کو دہرا رہی ہے ایک طرف لشکر ہے طاقتور، جدید ہتھیاروں سے لیس، سازشوں سے بھرا ہوا اور دنیا کی بڑی قوتوں کی سرپرستی میں دوسری طرف ایک تنہا ملک ایران یہ ایران کون ہے؟ یہ وہی ہے جسے کبھی پارس کہا جاتا تھا جس کے سینے سے سلمان فارسی نکلے اور جس کے دل میں آج بھی حسینؑ کی تپش باقی ہے اور جذبہ بھی۔

امام خامنہ ای کو دیکھیں ایک شخص ایک بزرگ۔ ایک مجاہد جس کے لبوں پر سکون ہے اور لہجے میں وہی جملہ جو کربلا والوں نے کہا تھا، اگر ہمارے جسم کٹ بھی جائیں، ہم سر نہیں جھکائیں گے اور ہم؟ ہم صرف مذمت کے ہیش ٹیگ بناتے ہیں کانفرنسیں کرتے ہیں اور شام کو ٹی وی ٹاک شو میں بیٹھ کر تجزیے کرتے ہیں۔ کاش کوئی اٹھے کاش کوئی کہے کہ ہم صرف تماشائی نہیں ہم وارثِ کربلا بھی ہیں لیکن شاید نہیں ہماری رگوں میں اب صرف تیل بہتا ہے، خون نہیں بلکہ غلامی دوڑ رہی ہے ایران لڑ رہا ہے نہ صرف دشمن سے بلکہ امت کی بے حسی سے تاریخ کی تکرار سے اور کوفیوں کی نئی نسل سے مجھے یقین ہے ایران کامیاب ہوگا کیونکہ جو حسینؑ کے راستے پر ہو اسے دنیا ہرا نہیں سکتی لیکن سوال صرف ایک ہے ہم کس صف میں ہیں؟ ایران کے ساتھی یزید کی خاموش فوج میں؟ ظلم کے خلاف خاموش رہنے والے اکثر تاریخ میں ظالموں کے ساتھ لکھے جاتے ہیں حسینؑ کے قافلے میں شامل ہونے کے لیے تلوار نہیں، صرف ضمیر زندہ ہونا کافی ہے۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari