Naam Islami, Nizam Yazeedi Akhir Kab Tak?
نام اسلامی، نظام یزیدی آخر کب تک؟

کلمۂ طیبہ کے نام پر حاصل ہونے والا ملک وہ ارضِ مقدس جس کے لیے لاکھوں لوگوں نے اپنے خون سے تاریخ کے اوراق رنگین کیے، آج انہی قربانیوں کا مذاق بن چکا ہے نام اس کا اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے، لیکن کردار، کردار ایسا کہ یزید کی روح بھی شرما جائے یہاں قرآن کی آیات تو پڑھائی جاتی ہیں لیکن فیصلے سودی بینکوں اور اغیار کے دباؤ پر ہوتے ہیں۔ منبر سے دین سکھانے والے اکثر کرایہ دار ہیں اور پارلیمنٹ میں بیٹھنے والے ضمیر بیچنے والے۔
یہ کوئی نئی بات نہیں، چھہتر برس سے یہی تماشا چل رہا ہے۔ کبھی آمریت کو اسلامی چادر اوڑھا دی جاتی ہے، تو کبھی جمہوریت کے نام پر چوروں اور ڈاکوؤں کا جشن منایا جاتا ہے۔ جس ملک میں قائداعظم کی تصویر ہر نوٹ پر ہو، لیکن اس کے فرمودات دفن ہوں، وہاں پھر انصاف کہاں سے آئے گا؟
یہاں اسلام خطرے میں ہے کا نعرہ بیچ کر ایوان بنتے ہیں، لیکن جب کسی مظلوم کی فریاد عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹاتی ہے تو سالہاسال صرف تاریخیں ملتیں ہیں، فیصلے نہیں۔
کیا یہ وہی پاکستان ہے جو مدینہ کی ریاست کے خواب میں دیکھا گیا تھا؟ یا پھر کوئی نیا شامِ کربلا ہے، جہاں یزید تخت پر ہے اور حسینؑ کو ہر محاذ پر کچلا جا رہا ہے؟ مگر ٹھہریے، یہاں تو نہ کربلا ہے، نہ خیمے جلتے ہیں، نہ نیزے بلند ہوتے ہیں یہاں بس ضمیر کا قتل ہوتا ہے اور قاتل عزت کے تمغے پاتے ہیں۔
ریاست مدینہ؟ حضور یہاں تو زکوٰۃ بھی بنکوں میں بند ہے اور غریب فٹ پاتھ پر۔ یہاں افلاس صرف نعرے کا موضوع ہے اور غربت صرف تصویری نمائش کا سامان۔ جو نظام عمرؓ اور علیؓ جیسے حکمرانوں کا تھا، اسے آج تھانیدار، پٹواری اور ایم پی اے کے ہاتھ گروی رکھ دیا گیا ہے۔ صد افسوس! یہاں انصاف نہیں بکتا، یہاں صرف انصاف کی امید بکتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ سب کب تک؟ کیا ہم نے خود کو تقدیر کے حوالے کر دیا ہے؟ کیا ہم یزید صفت حکمرانوں کے آگے جھکتے ہی رہیں گے؟
اقتدار والوں کا ضمیر جاگنے سے رہا۔ وہ تو بنک بیلنس کے بستر پر سوتے ہیں، ان کی نیندوں میں عوام کی بھوک، بچوں کی فاقہ کشی اور عدل کی چیخیں کوئی خلل نہیں ڈال سکتیں۔ اب اگر کچھ جاگنا ہے تو یہ عوام کو جاگنا ہوگا۔ یہ وہ وقت ہے کہ اگر نہ جاگے تو یہ یزیدی نظام صرف تمہیں نہیں، تمہاری نسلوں کو بھی چین سے جینے نہیں دے گا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ کربلا کی روح کو سمجھیے، اسے صرف محرم تک محدود نہ رکھیے۔
حسینیتؑ ایک رویہ ہے، ایک نظریہ ہے، ایک نظامِ عدل ہے۔ یزیدیت فقط تخت پر بیٹھے کسی ایک شخص کا نام نہیں، یہ پورا ایک نظام ہے جبر، استحصال، ناانصافی اور ضمیر فروشی کا نظام اور یہ نظام اب اس ملک کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ یا تو اس نظام کو بدلنا ہوگا، یا پھر تاریخ ہمیں صفحہ ہستی سے مٹا دے گی۔ قومیں اگر بے ضمیر رہیں تو قدرت ان سے اپنا حق واپس لے لیتی ہے۔
لہٰذا، فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔ آپ چاہیں تو حسینؑ بن کر سر بلند رکھیں، یا یزیدی درباروں کے غلام بن کر زندہ لاشوں کی طرح زندگی کاٹتے رہیں۔
یاد رکھیں، انقلاب صرف نعرے سے نہیں، کردار سے آتا ہے۔۔

