Mulk Tanazuli Ka Shikar Kyun
ملک تنزلی کا شکار کیوں
کسی بھی پرامن اور خوبصورت معاشرہ کی تشکیل کے لیئے ضروری ہے کہ ایک دوسرے کی ثقافت کا احترام کیا جائے، ایک دوسرے کے وجود کو برداشت کیا جائے۔ ایک دوسرے کی عزت نفس کو ملحوظ خاطر رکھ کر اس کا احترام کیا جائے ایک دوسرے کے جزبات کا احترام کیا جائے باہمی ربط کو مظبوط سے مظبوط تر کیا جائے تب جا کر ایک مضبوط معاشرہ وقوع پزیر ہوتا ہے۔
نیز محبت سے بھرے یہ جزبے معاشرے سے جڑے افراد کو کبھی کسی دشمن کو غالب نہیں آنے دیتے ہیں۔ جب معاشرے کے افراد منتشر فضا یعنی ناچاکی نفرت کو جنم دیں گے تو کوئی بھی تیسرا آدمی اس معاشرے کے بکھرے افراد کو توڑنے اور انتشار کیطرف لیجانے میں زرا بھی وقت ضائع نہیں کریگا یہی حال ہمارے ملک پاکستان کا بھی ہے۔
کچھ چھپی قوتوں نے اپنے مفاد کی خاطر اپنی اجارہ داری کی خاطر پوری قوم کو ٹکڑوں میں تقسیم کر کے نفرت کے انگارے اور شعلے بلند کر کے سبھی کو ان شعلوں کی نظر کر دئے ہیں اور خود بڑے مزے سے اپنی اجارہ داری فرعون کے طرز گھمنڈ کیطرح انجوائے کرنے میں محو عافیت سمجھ بیٹھے ہیں، کبھی کسی پارٹی کی سپورٹ کبھی کسی کی سپورٹ یہ سب کچھ تب عمل میں لاتے ہیں۔
جب اپنے مفاد پورے ہوتے دکھائی نہیں دیتے ہیں نیز درمیان میں ایک بیان دے کر لوگوں کو یہ باور کراتے ہیں کہ ہم غیر جانب دار ہیں، ہمارا اس سے کوئی مطلب نہیں یہ ہمارے پاس آتے ہیں ہم سے مدد طلب کرتے ہیں یہ اپنے مسئلے خود حل کیوں نہیں کرتے وغیرہ وغیرہ، جیسی وہ مہمل باتیں ہیں۔ جو لوگوں میں بظاہر یہ تصور پیدا کرتی ہیں کہ یہ واقعی غیر جانب دار ہیں۔
اصل میں ایسا بالکل بھی نہیں ہے یہ اپنی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے کسی بھی وقت جب جی چاہے جو بھی صاحب اقتدار ہوتا ہے، اس کا ایک منٹ میں گلہ گھونٹ دیتے ہیں۔ پھر دوبارہ اقتدار کی دوڑ کے لئے الیکشن کا انعقاد کرتے ہیں اور مزے کی بات ہے۔ اس پر پورا پہرہ بھی انہی قوتوں کا ہوتا ہے اور جب یہ قوتیں دیکھتی ہیں کہ اسکا حریف جیت کیطرف گامزن ہے تو وہاں اپنی کمانڈو ایکشن سے ایک منٹ میں سارا منظر بدل دیتے ہیں۔
یہ قوتیں گزشتہ کئ دہائیوں سے اسکے مزے لیتی رہی ہیں اب یہ قوتیں اس مزے سے سبکدوش ہونا نہیں چاہتین نیز یہ ایسے عمل کی ایکسپرٹ بن چکی ہیں، جیت کو ہار اور ہار کو جیت میں بدلنا ان کا بایاں ہاتھ کا کھیل ہے۔ انکی مداخلت لازمی ہے، انکی یہ مداخلت اس ملک کے لئے زہر کی حیثیت رکھتی ہے، بظاہر حب الوطنی اندر سے نفسی خواہشات نے اس ملک کو آگے بڑھنے نہیں دیا۔
جب تک ان قوتوں کو اپنی اوقات میں نہ لایا جائے یعنی انکی جو اپنی زمداری ہے، اسکا احساس نہ دلایا جائے تب تک اس ملک کی ترقی ناگزیر بلکہ ناممکن ہے۔ اپنی زمداریوں کو بھول کر یعنی بالائے طاق رکھ کر دوسروں کی زمداریوں میں مداخلت یہ حب الوطنی نہیں ہے، بلکہ یہ بہت بڑا ڈاکہ ہے نیز یہ اس ملک اور اس ملک میں رہنے والوں کے لئے صدمے سے کم نہیں ہے۔
جو ملک ہم سے بعد میں آزاد ہوئے ان ملکوں نے ترقی کر کے ہم سے کئی درجہ آگے نکل گئے۔ مگر ہم وہی کے وہی کھڑے ہیں۔ ہم بڑے فخر سے ایٹمی ملک ہونے کا دعویْے کرتے ہیں، ہم نے شاہین بنایا ہم نے غوری بنایا صرف دعوں پر فخر اور ناز کرتے ہیں شاہین غوری سبھی ہمارے پاس ہیں۔ لیکن ہم کھڑے کہاں ہیں یہ دیکھیں۔ بنگلہ دیش کے پاس نہ یہ قوتیں ہیں نہ میزائل ہیں نہ غوری ہے نہ شاہیں ہے کچھ بھی نہیں ہے۔
مگر ان کے پاس وہ سب کچھ ہے جو ہمارے پاس نہیں ہے انکے زخائر اور ہمارے زخائر میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ ہمارا سلامتی بجٹ ان کے بجٹ سے چار گنا زیادہ ہے، وہ پھر بھی محفوظ ہیں، مگر ہم پھر بھی غیر محفوظ آخر ایسا کیوں ہے؟ ہمارا ملک تنزلی کا شکار کیوں ہے؟ کون اس تنزلی کا زمدار ہے، مقتدر قوتیں یا سیاستدان؟ اس سے اندازہ لگا لیں کہ ہمارا یہ حال کیوں ہے۔
وقت آ گیا ہے کہ پاکستان کو بنگلہ دیش کی مثالیں دی جائیں۔ بنگلہ دیش اور پاکستان کے بجٹ23 -2022 میں واضح فرق ملاحظہ فرمائیں۔ جب ریاست کی پرائیورٹی میں تعلیم اور صحت کی بجائے ہتھیار اہم ہوں تو وہاں کا بجٹ یہی بنتا ہے۔ جو رکھا گیا ہے، عوام کو بھوک لگے تو گولی کھائے پیاس لگے تو اپنے ہی خون میں نہائے، بچے سکول جانے کی ضد کریں تو انہیں دشمن کے بچے پڑھانے والا گانا سنوائیں۔
باقی رہ گئی صحت تو اس کو بہتر کر کے کرنا کیا ہے۔ خون جلانے سے بہتر ہے مر جایا جائے۔ بنگلہ دیش بجٹ 2022
تعلیم 678 ارب
دفاع 400 ارب
صحت 369 ارب
پاکستان
دفاع بجٹ 1586 ارب
صحت 12 ارب
تعلیم 6 ارب