Muftiyon Ki Khamoshi, Ummat Ke Behissi Aur Ghaza Ka Lahu
مفتیوں کی خاموشی، امت کی بے حسی اور غزہ کا لہو

جب منبر خاموش ہو جائے اور مظلوم کی چیخیں دیواروں سے ٹکرا کر لوٹ آئیں، تو سمجھ لو دین کے رکھوالے اپنے ایمان کا سودا کر چکے ہیں۔ دنیا کے ایک کونے میں غزہ ہے جہاں آسمان سے آگ برستی ہے زمین شعلے اگلتی ہے اور ہوائیں معصوم لاشوں کی مہک سے بھر گئی ہیں۔ ایک ایسا شہر جہاں بچوں کے کھلونے بھی خون میں تر ہیں جہاں عورتوں کے سروں سے چادریں چھین لی گئی ہیں جہاں ہر شام، ایک نیا قیامت خیز سورج غروب ہوتا ہے اور دوسری طرف امت مسلمہ کا وہ مقدس چہرہ ہے جس پر بے حسی کی دبیز تہہ جمی ہوئی ہے جہاں مفتیانِ کرام منبروں پر بیٹھ کر چپ کا روزہ رکھے بیٹھے ہیں۔
سوال صرف اتنا ہے کیا غزہ میں ظلم ہو رہا ہے؟ یقیناً ہو رہا ہے۔
کیا مسلمانوں کی نسل کشی جاری ہے؟ بلاشبہ۔
کیا مسجدیں، قرآن اور اذانیں پامال کی جا رہی ہیں؟ ہر روز۔ تو پھر مسلمان ریاستیں، حکمران اور مفتیانِ کرام کیوں خاموش ہیں؟
کیا ان کے ایمان مصلحت کے نیچے دب چکے ہیں؟ کیا ان کی زبانوں پر امریکہ و اسرائیل کا قفل چڑھا ہوا ہے؟ یا ان کے ضمیر صرف فرقہ واریت کے وقت جاگتے ہیں؟
اسلام کے مطابق جب کسی مسلم قوم پر حملہ ہو اور وہ دفاع سے قاصر ہو تو جہاد فرضِ عین بن جاتا ہے۔ غزہ میں یہی صورتحال ہے۔ مسلمان بےبس ہیں قتل عام ہو رہا ہے مگر جہاد کا اعلان ندارد نہ کسی اسلامی ریاست نے عملاً جہاد کا پرچم اٹھایا نہ کسی مفتی نے جہاد کے فتویٰ کی ہمت کی۔ حجروں میں بیٹھ کر روایتی بیانات دینے والے یہ مفتی جب کسی ضعیف مکتب فکر کی بات ہو تو آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں مگر جب امریکہ یا اسرائیل کا ظلم ہو تو ان کی زبانیں قفل ہو جاتی ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ بیشتر مسلم ریاستیں سیاسی غلامی کا شکار ہیں۔
ان کی پالیسیاں واشنگٹن اور لندن کے اشاروں پر بنتی ہیں۔ ان کے مفتی ان کے درباری، ان کے وزراء سب اقتدار کے غلام اور ضمیر کے یتیم ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو دین کو فقط پیشے اور پروٹوکول تک محدود کر چکے ہیں۔ آج اگر ایک ملک ایران نے کافروں کا للکارا ہے تو اس پر بھی نام نہاد مسلمان حوصلہ دینے ساتھ دینے کے بجائے نقطہ چینیاں کر رہے ہیں ہم مسلمان اپنے اندر کے حسد میں مبتلا ہیں ایک دوسرے کے لئے کدورتیں ہیں نفرت ہے بغض ہے تو بھلا ہم کیسے ان کافروں کا مقابلہ کریں گے۔ سوچئے کہیں دیر نہ ہو جائے۔
غزہ میں آج ماں اپنے بیٹے کو کفن میں لپیٹ رہی ہے، بیٹی اپنے باپ کے خون آلود جوتے کو سینے سے لگا کر سو رہی ہے اور مسجد اقصیٰ سے بہنے والا خون امت کی غیرت کو پکار رہا ہے مگر امت کے حکمران کسی کانفرنس میں مشغول اور مفتی صاحبان کسی درسِ اخلاق میں حلوہ کھانے میں مصروف ہیں۔
ہمارے ہاں نعتیہ محافل میں عاشق رسولﷺ کا دعویٰ زور و شور سے کیا جاتا ہے سڑکوں پر نعرے، جلوس اور جذباتی تقریریں بھی عام ہیں مگر افسوس جب کفار، قرآن جلائیں یا مسجد اقصیٰ پر حملہ ہو تو یہ چابی والے عاشق خاموش رہتے ہیں یا صرف سوشل میڈیا پر تبصرے کرکے ضمیر کا قرض اتارتے ہیں۔
جب حق کے وقت زبان بند ہو جب ظالم کے خلاف فتویٰ نہ آئے جب مظلوم کی چیخیں ان کے کانوں سے ٹکرا کر لوٹ آئیں تو یہ بزدلی نہیں یہ خیانت ہے۔ یہ ایمان کا سودا ہے۔
یہ امت کے جذبات سے کھیلنا ہے۔
یہ منبرِ رسولﷺ کی توہین ہے۔
یہ وقت تماشائی بننے کا نہیں، یہ وقت آواز اٹھانے کا ہے شعور پھیلانے کا ہے مظلوم کی مدد کا ہے ظالم کے خلاف ہر میدان میں جہاد کا ہے یاد رکھیں جہاد صرف تلوار سے نہیں بلکہ قلم، میڈیا، معیشت، علم اور اتحاد سے بھی ہوتا ہے۔
اے منبر کے وارثو اگر جہاد کا فتویٰ نہیں دے سکتے تو کم از کم اپنی خاموشی سے ظالم کو تقویت نہ دو۔ اے مسلم حکمرانو اگر تم فلسطینی بچوں کے قاتلوں کے خلاف نہیں بول سکتے تو کم از کم اسلام کا نام اپنے بیانوں سے ہٹا دو۔ کیونکہ ظالم کے خلاف خاموش رہنے والا خود ظالم ہوتا ہے۔
مفتیوں کی خاموشی اور امت کی بے حسی فلسطین اور غزہ کے مسلمانوں پر ہوتا ظلم پر برابر کی شراکت داری ہے مفتی بھی کمزوروں پر فتوے دیتے ہیں جہاں طاقتور ہو وہاں انکے ایمان کا جنازہ نکل جاتا ہے لفاظیت سے بھرا عشق کا بھوت ڈھیر ہوجاتا ہے حقیقت جانیں تو آج سبھی سہل پسند اور آرام طلب کا شکار ہیں زبانی دعوے ہیں مگر عمل کہیں سے بھی نہیں دکھائی دیتا مفت کا اسلامی چورن بیچتے مفتی علماء ایکسپوز ہو چکے ہیں۔

