Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shair Khan
  4. Mashriq e Wusta Ki Rait Mein Dafan Wafadariyan

Mashriq e Wusta Ki Rait Mein Dafan Wafadariyan

مشرقِ وسطیٰ کی ریت میں دفن وفاداریاں

مشرقِ وسطیٰ کی سرزمین پر اگر کوئی چیز مستقل ہے تو وہ عدمِ استقلال ہے۔ یہاں ریت کے ذرے بھی ہواؤں کے تابع ہیں اور تخت و تاج واشنگٹن کے اشارے پر جھکتے ہیں۔ جب ایران نے اپنے قونصل خانے کی تباہی کے بعد اسرائیل پر جوابی کارروائی کی تو حقیقت میں یہ صرف میزائلوں کا تبادلہ نہ تھا یہ اس خطے کی نظریاتی بنیادوں کا ایک تلخ امتحان تھا۔ جیسے ہی ایرانی ڈرونز آسمان پر بلند ہوئے، ویسے ہی عرب دنیا کی حفاظتی دیواریں بھی جاگ اٹھیں لیکن اپنے دشمن کی حفاظت کے لیے اپنے ہمسائے کے دفاع کے خلاف۔

یہ عجب طرز منافقت ہے سعودی عرب جو خود کو امتِ مسلمہ کا مرکز کہتا ہے اس کے راڈار ایک لمحے میں بیدار ہو گئے یمن کے مظلوموں پر بم برسانے والے طیارے اب ایران کے دفاعی ردعمل کو علاقائی خطرہ قرار دے کر فضا میں پرواز کرنے لگے۔ اردن، جو کبھی فلسطین کا فطری محافظ سمجھا جاتا تھا، اسرائیل کے دفاع میں اپنے میزائل سسٹمز کے پردے کھول بیٹھا۔ یہ وہی خطہ ہے جہاں ایک طرف تو اسرائیل ہر ہفتے غزہ میں خون کی ندیاں بہاتا ہے اور دوسری طرف عرب دنیا صرف تشویش کے بیانات دیتی ہے۔

ایران جب زبان کھولتا ہے تو اسے فرقہ پرست کہا جاتا ہے اور جب اسرائیل بارود بولتا ہے تو اسے سلامتی کا حق قرار دیا جاتا ہے۔ یہ دوہرا معیار اب صرف اخلاقی تضاد نہیں رہا بلکہ عسکری حقیقت بن چکا ہے یا مفاد پرستی کی بھینٹ چڑھ چکا ہے یا منافقت کا ممبہ اصل سوال یہ ہے کہ ایران نے جب جواب دیا تو اس کے مقابلے میں پوری عرب دنیا اسرائیل کی فصیل بن کر کیوں کھڑی ہوگئی؟ کیا یہ وہی خطہ ہے جو چند دہائیاں قبل عرب نیشنلزم کے نعرے لگاتا تھا؟ کیا یہ وہی خلیج ہے جہاں جمال عبد الناصر کی آواز گونجتی تھی؟

اب ہر نعرہ، ہر ایمان، ہر نظریہ ایک تیل کے کنویں، ایک بندرگاہ یا ایک امریکی فضائی اڈے میں دفن کر دیا گیا ہے۔ ایران آج تنہا ہے لیکن اس کی تنہائی گواہی دیتی ہے کہ وہ کم از کم اپنے موقف پر قائم ہے۔ جبکہ خلیجی بادشاہتیں بھرپور تعاون کے باوجود عالمی عزت حاصل نہ کر سکیں نہ غزہ بچا سکیں، نہ اپنا ضمیر۔ جس مشرقِ وسطیٰ میں پہلے سرد جنگیں لڑی جاتی تھیں اب وہاں گرم منافقت کا راج ہے۔ جہاں پہلے مسجد اقصیٰ کے لیے فوجی مارچ ہوتے تھے، اب وہاں اسرائیلی سیاحت کو ویزے دیے جاتے ہیں اور جہاں کبھی تہران و دمشق کو کفر کا مرکز کہا جاتا تھا اب وہی شہر مظلوموں کے واحد وکیل بنے کھڑے ہیں۔

ایسا لگتا ہے کہ وقت کا قبلہ بدل گیا ہے اب نہ مکہ کی حرمت میں کوئی وزن ہے، نہ بیت المقدس کی چیخوں میں کوئی اثر رہ گیا ہے تو صرف ایک ایران جو خاموش نہیں رہا اس کی زبان میں شعلے ہیں، اس کی فضاؤں میں ڈرونز۔ اب ذرا مسلمانوں کی منافقانہ طرز عمل پر کو بھی زیر بحث لانا بھی ضروری ہے کہنے کو مسلمان ہیں مگر اندر پورے کے پورے۔۔ جب ایران پر اسرائیل نے حملہ کیا تو تل ابیب کے ایوانوں میں جشن کا سماں ہونا فطری تھا۔ لیکن تعجب تب ہوا جب پاکستان کی گلیوں، سوشل میڈیا گروپوں اور کچھ مسلکی منبروں سے بھی خوشیوں کے نعرے بلند ہونے لگے۔ جیسے کسی نے ان کے ذاتی دشمن کو نشانہ بنایا ہو۔ جیسے بیت المقدس کے قاتل اب ان کے ہیرو بن گئے ہوں۔ یہ کیسے مسلمان ہیں؟ جنہیں اسرائیل کے ہاتھوں غزہ کی تباہی دکھائی نہیں دیتی، لیکن ایران کا جواب دکھائی دیتا ہے؟

یہ وہی لوگ ہیں جو کربلا کے قاتلوں پر خاموش رہے اور اب جدید یزیدیت کے ساتھ صف بندی کیے کھڑے ہیں۔ ان کی خوشی دراصل اسرائیل سے نہیں، ایران سے بغض کی علامت ہے اور یہ بغض، اب ایمان کی حدود سے نکل کر دشمنانِ اسلام کی صفوں میں داخل ہو چکا ہے۔ ان کا مسئلہ نہ دین ہے، نہ امت، نہ مظلوم فلسطینی ان کا مسئلہ صرف مسلک، تعصب اور عقل سے دشمنی ہے۔ یہ وہ طبقہ ہے جو قرآن نہیں پڑھتا، صرف اس کی آیتوں کو ہتھیار بنا کر دوسروں کے ایمان پر سوال اٹھاتا ہے۔ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے افغانستان میں روس کے خلاف جہاد کو فرضِ عین کہا لیکن فلسطین پر خاموشی اختیار کی اور اب اسرائیل کے مظالم پر تالیاں بجا کر ثابت کر دیا کہ اِن کے دلوں میں نہ کعبہ ہے نہ قبلہ صرف تعصب کا بت سجا ہے۔

یاد رکھیں! جو ظالم کے حملے پر خوش ہو، وہ مظلوم کی لاش کا شریکِ جرم ہوتا ہے۔ ایسے افراد آج پاکستان میں چھوٹے حلقوں میں نہیں باقاعدہ پلیٹ فارمز پر بیٹھے ہیں۔ کچھ میڈیا پر کچھ مذہبی گروپوں میں، کچھ سیاسی چھتریوں تلے۔ ان کی گفتگو کا آغاز حق سے ہوتا ہے اور انجام صیہونیت کے حق میں دعاؤں پر۔ یہ دین نہیں یہ وہی جہالت ہے جس سے قرآن نے خبردار کیا تھا۔ یہی وہ سوچ ہے جو امت کی قبر کھودتی ہے اور امریکہ و اسرائیل کو کندھا فراہم کرتی ہے۔ جن کے دل بغض سے بھرے ہوں انہیں قبلہ اول کی پکار سنائی نہیں دیتی۔ وہ صرف اُس وقت بولتے ہیں جب مسلک کا چشمہ آنکھوں پر چڑھا ہو اور عقل غلام ہو چکی ہو۔ اللہ مسلمانوں کو جہالت سے نکل کر ایک مسلمانی پلیٹ فارم پر جمع ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan